تحریر : میر افسر امان پاکستان میںنون لیگ بمقابلہ جنون لیگ کا کئی روز سے قوم تماشہ دیکھ رہی تھی۔ پاکستان کے عوام دونوں کے طریقہ کار سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں رائج مغربی جمہوریت آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات ہے۔ مغرب میں حکمران جمہوریت کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ اگر حکومت کی کسی پالیسی سے اختلاف ہو تو اپوزیشن کی طرف سے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حکمران حکومت اس کو مناسب وزن دیتی ہے اور معاملہ جمہوری طریقے سے طے کر لیا جاتا ہے ۔کبھی بھی جگ ہنسائی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ حکمران اپوزیشن کا مطالبہ مان کر مستعفی بھی ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے حکمران پارٹیاں اپوزیشن کے کسی اختلاف پر مناسب وزن نہیں دیتی ۔جس وجہ سے معاملہ سڑکوں پر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر فوج اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے۔ مثلاً آف شور کمپنیوں کی ہی بات کی جائے تو برطانیہ میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ کے سامنے الزام کی صفائی میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا۔حتہ کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت میں خاموشی سے آف شور کمپنیز میںنام آنے والوں کے ساتھ قانون کے مطابق صحیح طریقہ سے ڈیل کر کے مسئلہ کو صحیح سمت میںڈال دیا۔ مگر پاکستان میں ہمارے وزیر اعظم صاحب جن کی فیملی کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا۔
وزیر اعظم صاحب نے دو دفعہ ا لیکٹرونک میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ میں آکر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ۔ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو سپریم کورٹ نے ١٩٥٦ء کے احتساب قانون کو نامکمل قانون کہتے ہوئے نیا قانون بنانے کا کہا تو حکومت نے سات ماہ تک ٹال مٹول کیا۔ جب پارلیمنٹ کی کمیٹی نے احتساب کرنے والے اداروں کو پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے بلا کر کہا کہ آپ نے اب تک کرپشن کرنے والوں کا احتساب کیوں نہیں کیا تو سب ادارے بے بس نظر آئے۔ اسی لیے تو عمران خان کہتے رہتے ہیں کہ نواز شریف صاحب نے پاکستان کے سارے اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔لیکن عمران خان کا اسلام آباد بند کر دینے کا اعلان بھی عوام نے مناست نہیں سمجھا ۔آپ احتجاج پروگرام کرنے کا تو حق رکھتے ہیں لیکن دالخلافہ کو بند کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ آپ اپنے صحیح مٔوقف کو غلط طریقہ سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بلا آخر سیاسی جماعتوں نے انصاف حاصل کرنے کے لیے ملک کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ نے آج یکم نومبر کو سب پارٹیوں سے لکھ کر مانگا ہے کہ آپ جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یاسپرہم کورٹ سے۔ نواز لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے جوڈیشنل کے لیے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف صاحب اور اداروں کو حکم دیا کہ جمعرات تک جواب داخل کریں تاکہ جلد ازجلد فیصلہ کیا جائے ۔ یہ کہہ کر مقدمہ٣ تاریخ تک ملتوی کر دیا ہے۔دوسری طرف جنون والے سپریم کورٹ گئے تھے۔مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے حسب عادت جلد بازی کرتے ہوئے پہلے لاہور میں ایک احتجاجی جلسہ کیا اور اس جلسہ میں ٢ نومبر کو اسلام آباد بند کر دینے کی دھمکی کے ساتھ میدان میں اُتر آئے۔ جیسے اس احتجاج کی تاریخ نزدیک آئی پورے ملک میں پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی سارے عوامی ترقیاتی کام رک گئے۔ پاکستان میںنون لیگ اور جنون لیگ نے ایک قسم کی جنگ چھیڑ دی۔ حکومت نے پورے پاکستان کے راستے کنٹینرز لگا کر بند کر دیے۔
Imran Khan
عمران خان نے اپنے کارکنوں کو بنی گالہ بلایا۔ حکومت نے بنی گالہ کو ناکے لگا کر بند کر دیا۔آٹھ فٹ گہری کھائی کھود کر بنی گاکہ کا راستہ بند کر دیا گیا۔ عارف علوی صاحب کو گرفتار کیا پھر وزیر داخلہ کے کہنے پر چھوڑ دیا گیا۔ اندلیپ عباس پر مرد پولیس نے تشدد کر کے گرفتار کیا بعد میں چھوڑ دیا۔ کارکن پہاڑی راستے سے بنی گالہ پہنچے جن پر آنسو گیس کے شل پھینکے گئے۔ پورے ملک سے بنی گالہ آنے والے تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ پورے ملک میں سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔پشاور سے آنے والے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے جلوس کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سرحد پر روک لیا گیا۔ ہارون آباد کے پل پر کنٹینر ز کی سات لہریںاور مٹی کے پہاڑ بنا کر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ آنسو گیس کے شل کی وجہ سے درجنوں زخمی ہوئے۔ مشتعل کارکنوں نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
وزیراعلیٰ کے جلوس نے رکاوٹیں بلڈوذرز سے ہٹائیںاور پنجاب میںبرہان انٹر چینج تک داخل ہو گئے۔ رات وہیں گزاری۔ صبح آنسو گیس کے شل چلے، پھر عمران خان کے کہنے پر واپس صوابی اپنے کیمپ میں چلے گئے اور اب موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ آنے کا پرگرام بنایا تھا۔ ادھر شیخ رشید کو پکڑنے کے لیے راولپنڈی کو بند کر دیا گیا۔ ایک بچہ گیس شل سے دم گھنٹے کی وجہ سے شہید ہو گیا۔
شیخ رشید موٹر سائیکل پر گلیوں سے ہوتے ہوئے جلوس میں آئے ایک چینل کی گاڑی پر چڑھے، سگار سلکایا،کارکنوں سے خطاب کیا ،پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے پھر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر چھپ گئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے کہاہم نے انتہائی کوشش کی کہ کرپشن کرنے والوں کا پارلیمنٹ میں احتساب ہو مگر حکمرانوں نے روڑے اٹکائے پھر ہم سپریم کورٹ گئے۔
Jamaat e Islami
جماعت اسلامی نے ١٩٩٦ء میں کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ اب بھی ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے خلاف آواز اُٹھائی۔ کرپٹ چائے موجودہ حکران ہو ں یا سابقہ ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں۔ کرپشن کرنے والوں کو ڈبل شاہ نہیں بننے دیں گے۔وزیر داخلہ نے موجودہ حالات میں عمران خان کا فیصلہ پر اپنی پریس کانفرنس میں کچھ تنقیداور کچھ شکایت کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کی جیت ہے اور کسی کی نہیں۔ انتظامیہ کو حکم دیا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کل کے جلسہ کی سیکورٹی کا انتظام کرے۔ اُدھر عمران خان نے پہلے جلد بازی میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اور مرکزی قیادت بنی گالہ میں بیٹھی رہی اور کارکن مار کھاتے رہے۔ اب سپریم کورٹ کے کیس چلانے پر اسلام آباد سیل کرنے کے بجائے پھر جلد بازی میں پریڈ گرائونڈ میںیوم تشکر منانے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ حکومت نے بھی راستے کھولنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
اس پر ڈاکٹر طاہرقادری صاحب نے کہا کہ یہ تحریک انصاف کا اپنا فیصلہ ہے۔ انہوں نے انا اللہ و اناالیہ راجعون پڑھ کر تبصرہ کیا اور کہا کہ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹیویٹ کیا گیاکہ یہ عمران خان کا یو ٹرن ہے۔ جو میڈیا عمران خان کو سپورٹ کر رہا تھا اب عمران خان کی پالیسیوں کے خلاف تبصرے کرنا شروع کر دیے ہیں۔مرکزی حکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کو اسلام آباد آنے سے روکا جو غلط بات ہے۔
مگر اسی طرح وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ کہنا کہ مجھے اسلام آباد میں اپنے چیئرمین سے نہیں ملنے دیا گیا تو میں نواز شریف صاحب وزیر اعظم صاحب کو خیبر پختونخوا میںداخل نہیں ہونے دوں گا۔صاحبو!دونوں طرف کی غلط پالسیوں کی وجہ سے نقصان پاکستان کا ہوا۔ ہمارا ازلی دشمن ہماری سرحدوں پر بلا جواز فائرنگ کر کے ہمارے شہریوں کو شہید کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ نون لیگ اور جنون لیگ نے اپنی اپنی توپوں کو بند کر دیا ہے۔ پر امن احتجاج کرنا ہر سیاسی پارٹی کا حق ہے تحریک انصاف ٢ کو پریڈ گرائو نڈ یوم تشکر منا کر کرے گی۔اب عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔