تحریر : مہر بشارت صدیقی پاکستان اور بھارت نے دہشت گردی سمیت تمام تصفیہ طلب امور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے رابطوں کے فروغ اور خطے سے دہشتگردی کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق رائے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس ای او)کے 15 ویں اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران پایا گیا، ملاقات کی خواہش کا اظہار بھارتی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا جس کا حکومت پاکستان نے مثبت جواب دیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر دہشت گردی سے متعلق معاملات پر بات چیت کے لیے فوری طور پر ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 2016ء میں پاکستان میں آئندہ سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے وزیراعظم نواز شریف کی دعوت قبول کر لی۔
ملاقات کے بعد خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چودھری نے بھارتی ہم منصب سبرا منیم جے شنکر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ،دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ اور علاقائی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ امن کو یقینی بنانا اور ترقی کو فروغ دینا بھارت اور پاکستان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے وہ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ دونوں نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے جنوبی ایشیا سے اس لعنت کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا۔ دونوں اطراف کی جانب سے درج ذیل اقدامات کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
1۔دہشت گردی سے متعلقہ تمام ایشوز پر بات چیت کے لئے دونوں قومی سلامتی مشیران (این ایس ایز) کے درمیان نئی دہلی میں ملاقات۔ 2۔ڈی جی بی ایس ایف اور ڈی جی پاکستان رینجرز اور اس کے بعد ڈی جی ایم اوز کی جلد ملاقاتیں۔3۔ایک دوسرے کی تحویل میں ماہی گیروں کی ان کی کشتیوں کے ہمراہ 15 روز کے عرصہ میں رہائی کا فیصلہ۔4۔مذہبی سیاحت میں سہولت کے لئے طریقہ کار۔ 5۔دونوں اطراف سے آواز کے نمونہ جات کی فراہمی جیسی اضافی معلومات سمیت ممبئی حملہ کیس کے ٹرائل کو تیز کرنے کے طریقوں پر بات چیت۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کے کسی بھی اہم معاملے کو واضح طور پر نہیں اٹھایا گیا۔کہا جارہا ہے کہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بات ہوئی لیکن اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔روس کے شہر اوفا کے کانگریس ہال میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے موقع پر تو ہین آمیز رویہ اختیار کیا اور شہنشاہ بننے کی کو شش کی۔
Narendra Modi
مودی نواز شریف سے ملاقات کے منتظر کھڑے تھے تاہم جب نواز شریف آئے تو ہم منصب مود ی نے دو چار قدم آگے بڑھ کر ان کا گرم جوشی سے خیر مقدم کرنے کے بجائے تو ہین آمیز رویہ اختیار کیا اور وہیں کھڑے رہے۔ انہوں نے نواز شریف سے ہاتھ تو ملایالیکن گرمجوشی کا عنصر نظر نہ آیا اور پہلی ملاقات کی طرح گلے ملے نہ پرجوش مصافحہ کیا۔وزیر اعظم نواز شریف اس ملاقات میں پر اعتماد دکھائی دیئے لیکن مودی کے چہرے پر تنائو کے آثار نمایاں رہے۔چہرے کے بوجھل تاثرات بتا رہے تھے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے اپنے ہم منصب سے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کی بات کی یا نہیں لیکن اعلامیہ میں اس کا بھی کوئی تذکرہ نہیں،پاکستان میں ”را” کی فنڈنگ کے بارے میں بھی مشترکہ اعلامیہ مکمل خاموش ہے۔ممبئی حملہ کیس میں تو تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں۔بھارتی وزیراعظم کے پاکستان آنے کا ذکر تو ہے لیکن پاک بھارت تعلقات کی سمت متعین نہیں کی گئی ،دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات کب شروع ہونگے اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ مشترکہ اعلامیہ کے تحت بھارت پاکستان کے 27 قیدی رہا کرے گا جبکہ جواب میں پاکستان کو بھارت کے 353 قیدی چھوڑنے پڑیں گے۔اپوزیشن رہنمائوں نے کہا ہے کہ نوازشریف سے ملاقات کے وقت مودی کا رویہ غیر سفارتی اور بدتمیزی پر مبنی تھا۔مودی نے ملاقات عالمی دبائو پر کی ہے ،مذاکرات کے بعدسامنے آنیوالا اعلامیہ یکطرفہ ہے۔
نواز مودی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ پر اپوزیشن رہنمائوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی سید خورشیدشاہ نے کہا ہے کہ نواز شریف اور مودی کی ملاقات کے نتیجہ میں خطے میں پائیدار امن اور دوطرفہ تعاون کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے سربراہوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں نتیجہ خیز بنایا جائے تاکہ خطے کے عوام کی بہتر زندگی اور خوشحالی کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جا سکے۔ سینیٹر رحمن ملک نے بھارتی وزیراعظم کے غیرسفارتی رویہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مودی نے وزیراعظم نوازشریف کااستقبال سفارتی آداب کے منافی کیا۔ہمارے وزیراعظم طویل راہداری پر چل کر مودی کی کرسی تک گئے ، ہندوستانی وزیراعظم نے سفارتی معمولات پر معمولی سا عمل بھی نہ کیا اور اپنے پاکستانی ہم منصب کی جانب چند قدم چل کر جانا بھی پسند نہیں کیا۔انہوں نے مودی کے رویے کو ” غیر سفارتی اور بدتمیزی” پر مشتمل قرار دیا اور نواز شریف نے پاکستانی قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نریندر مودی کا ذہن نہ بدلا ہے نہ بدلے گا۔مودی نے عالمی دبائو پر ملاقات کی ہے۔
ملاقات سے تعلقات اور مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ملاقات کے دوران ہندوستان کی جانب سے جو نکات اٹھائے گئے ہیں ان سے دونوں ممالک کے مابین تصفیہ طلب مسائل کے حل میں مشکل ہوگی۔ اقتصادی راہداری پر ہندوستان کے اعتراضات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ؟۔ شیریں مزاری نے کہا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ ملاقات میں نواز شریف ” ہندوستان کو اطمینان دلا رہے ہیں”۔ان کے خیال میں نواز شریف کی جانب سے ہندوستانی رہنماکو مدعو کرنا غیرضروری اور ” سفارتی پروٹوکول کی ضروریات سے ہٹ” کر تھا۔شیریں مزاری نے مذاکرات میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔سینیٹر حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ نریند ر مودی کو پتہ چل گیا کہ ان کی پاکستان کے بارے میں انتہا پسندانہ پالیسی نہیں چلے گی۔پیپلزپارٹی کی رہنما سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ بھارت پاکستان کو کمزور نہ سمجھے۔ ملاقات میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہونا چاہیے تھا۔