”ایک عرصے سے کوئی خاص خُفیہ قوت ایسی ضرور ہے کہ جو مجھے بہت کچھ لکھنے اور کہنے سے روک دیتی ہے، ورنہ تو میرے پاس لکھنے اور کہنے کو اِتنا کچھ ہے، کہ آپ پڑھتے اور سُنتے سُنتے تھک جائیں گے مگرمیں لکھتے لکھتے اور کہتے کہتے نہیں تھکوں گا، مگر اپنے سینے میں اتنا لاوا رکھنے کے باوجود بھی اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں نے وہ سب کچھ سچ لکھ دیا یا کہہ دیا تو مجھ سے خلقِ خدا ناراض ہو جائے گی، اور اگر خلقِ خدا مجھ سے ناراض ہو گئی تو پھر میں کس کس کو ماناتا پھروں گا اور اِس کے سامنے اپنے پاک دامنی کے لئے کیا کیا وضاحتیں پیش کرتا رہوں گا۔
اور پھر اِس پر بھی کیا یقین ہے کہ ناراض خلقِ خدا میری بات مان جائے گی اور اِس کا رویہ میرے ساتھ پہلے جیسا ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ میں کچھ لکھنے اور کہنے سے ڈرتا ہوں، آج میں جس کشمکش اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوں اِس میں ایک میں ہوں دوسرا میرا دماغ ہے اور تیسرا میرا دل ہے جو اپنے چاروں خانوں کے ساتھ اَنگنت گرم اور ٹھنڈے جذبات لئے شامل ہے۔
جبکہ دوسری طرف میرے ضمیر کی وہ خفیہ طاقت ہے جو مجھے وہ سب کچھ کہنے اور لکھنے سے روکتی ہے، جو میں کرنا چاہتا ہوں، ورنہ تو میں کب کا وہ سب کچھ کہہ اور لکھ چکا ہوتا جِسے لکھنے کے لئے میں کافی عرصے سے بیقرار ہوں، مگر آج جب میں اپنی اِس جنگی اضطرابی کیفیت سے نکلنا چاہ رہا ہوں اور وہ سب کچھ کہہ اور لکھ دینا چاہتا ہوں تو ایسے میں مجھے آپ کی حمایت اور آپ کی جانب سے ملنے والے اُس حوصلے کی اشد ضرورت ہے، جو آپ نے بہت سے مواقع پر بہت سے لوگوں کو دیئے ہیں، اِسلئے آج میں بھی آپ سے ہاتھ جوڑ کر اُن کی بھیک مانگتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔ اور مجھے اپنی بھرپور حمایت اور حوصلے کی خیرات ضرور بخش دیں گے۔
اور آپ جب یہ دونوں چیزیں میری خالی جھولی میں ڈالنے کا ارادہ بھی کرلیں گے تو میں آپ سے اِپنی بات لکھنے اور کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ”کہوتوکہدوں…؟”
پھر یوں جب آپ مجھے کہو تو کہدوں کی اجازت دے دیں گے تو میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اپنے دل و دماغ پر چڑھے غبار کے خلاف کو اُتار پھیکوں گا.. اور وہ سب کچھ جو ایک لمبے عرصے سے میں نے اپنے دل کے تمام خانوں میں سب سے چھپا کر رکھا ہے اور بہت کچھ یادوں کے بند دریچوں کے ساتھ اپنے دماغ کی رگوں میں ٹھوس کر رکھا ہوا ہے اُن سب کو آپ کے سامنے اُنڈیل دوں گا اور اِس طرح تب میں خود کو گنگا نہایا ہوا جان کر پوِّتر سمجھنے لگوں گا”۔ یہ ایک خواہش ہے جو میرے دل و دماغ میں اُس وقتپنہاں ہے جب سے میں نے معاشرے کی ناہمواریوں کا مشاہدہ کیا ہے، اور آج میری اِس بات سے شاید آپ بھی بڑی حد تک متفق ہوں گے کہ جس معاشرے میں آپ اور میں سانس لے رہے ہیں اِس میں حکمران اور مالدار طبقے نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر کیسی کیسی ناہمواریاں پیداکردی ہیںکہ میرٹ اور اِنصاف کا کھلے عام خون ہونا عام ہو گیا ہے، اپنی اپنی پسند کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سفارشی اور جونئیرز سینئرز پر لاکر بیٹھائے جا رہے ہیں۔
اور اِنہیں ترقیاں دے کراپنی اور اغیار کی مرضی کے کام کئے جا رہے ہیں، مُلک میں کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں رہا ہے جہاں پر حق دار کو اِس کے حق سے محروم رکھ کر اپنی مرضی کے اُن لوگوں کو نوازہ جا رہا ہے، جو اُن کے پسندیدہ افراد ہیں اور اِس عمل سے گزرنے کے بعد اُوپر سے حکمران طبقہ یہ دعویٰ بھی کرتے نہیں تھک رہا ہے کہ ہم حق و سچ کے علمبردار ہیں ہم اور ہماری حکومت نے اِس کا تہیہ کرلیا ہے کہ مُلک میں میرٹ کو عام کیاجائے گا، اور حقدار کو اِس کا حق ملے گا، مگر ایسا نہیں ہے جیس آج ہماری موجودہ حکومت دعوے کر رہی ہے۔
Nawaz Sharif
اِس کے اِس دعوے کی ایک تازہ ترین مثال ہمارے سامنے موجود ہے جب موجودہ حکومت کے پہلے ابتدائی ایام میں مُلکی اہم ترین ادارے میں ہونے دی جانے والی ترقی کے عمل کے دوران سامنے آئی ہے، قوم نے دیکھا کہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دو سینئرز کو پائی پاس کرکے اپنی پسند کے ایک جونئیر کو ترقی دے کر اِس اہم قومی ادارے میں پائی پاس کرنے کی روایت کو برقرار رکھا ہے، جبکہ اپنے گزشتہ دودورے حکومتوں میں سے دوسرے دورِ حکومت میں ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اِس اہم ترین قومی ادارے میں اپنے پسند کی جونئیر ترین شخصیت کو ترقی دے کر اِس کے ہی ہاتھوں اپنی لولی لنگڑی ہی سہی مگر جمہوری حکومت گواں چکے ہیں۔
اِس مرتبہ بھی وزیر اعظم صاحب اِس اہم ترین قومی ادارے میں ترقی کے معاملے میں دو سنئیرز کو بائی پاس کر کے اپنی پسند کے جونئیر مگر اپنے پیشے میں انتہائی قابل اور باصلاحیت شخصیت کو ترقی دے چکے ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے اِس قومی ادارے میں ترقی کے عمل کو جس انداز سے گزرا ہے اِس پر کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کا انتخاب غلط ہو سکتا ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلے اِس مُلکی اہم ترین ادارے میں دی جانے والی ترقی اُن سنئیرز کے حصے میں آتی جو ترقی پانے والے جونئیرسے بہت زیادہ سنئیرز تھے۔
مگر اِس موقع پر یہ شائد زیادہ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو ایک طرف رکھ دیتے اور اپنے منصب اور ذاتی حیثیت سے سوچنے اور سمجھنے کے بجائے اور تدبر و بردباری کا مظاہرہ کرتے اور اِس اہم ترین قومی ادارے میں سینارٹی لسٹ کے حوالے سے ہونے والی ترقیوں کے سلسلے کو ملحوظِ خاطر رکھتے توساری پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا میں بھی یہ پیغام ضرور چلا جاتا کہ پاکستان کے پہلے دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف اَب تیسری مرتبہ وزارتِ عظمی ٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سیاسی ولایت کے اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ آج اِن کے نزدیک ذاتی پسند اور نا پسند کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔
آج پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف سیاسی روحانیت کو سمجھنے لگے ہیں اور یہ اِسی بنیاد پر مُلک و قوم کے فلاح اور بہبود اور اِس کی ترقی کے لئے ایسے سوچتے ہیں اور ایسے اقدامات اور احکامات جاری کرتے ہیں کہ اِن کے ایک ایک قول و فعل سے حب الوطی پھوٹتی ہے، جبکہ آج قوم کو ایک مرتبہ بھی جہاں اپنے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے اہم قومی ادارے میں ہونے والی ترقی کے حوالے سے سینئرز کے ساتھ ہونے والی حق تلفی پر مایوسی ہوئی ہے تو وہیں قوم اِن کے لئے بھی دعا گو ہے کہ اِن کی حکومت قائم رہے، اور اِنکی حکومت کے ساتھ پھر کوئی ایسا ویسا اور کیسا نہ ہو جائے جی اِن کی دوسری حکومت کو اِن کی پسند کی شخصیت نے اُلٹ پلٹ کر رکھ دی اتھا، بہرکیف..!آپ سمجھ چکے ہوں گے میں کیا کہنا چاہتا ہوں اور اِسی کے ساتھ ہی میں آپ سے میں ابھی یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ کہو تو کہدوں..(ختم شُد)