بائو جی، الطاف بنیں گے یا پھر

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : قادر خان یوسف زئی

قومی سلامتی اور وطن ِ عزیز کی بقا سے زیادہ کوئی شخص اہمیت کا حامل نہیں، نئے سیاسی ڈاکٹرائن میں قریباََ تمام جماعتوں نے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے پرانی روش کو دوہرانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، جو میری ذاتی رائے میں سیاسی معکوس کی جانبسفر ہے،جس کے مضر نتائج آج تک عوام بھگت چکے۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان چپقلش کا تاثر ہی نہیں بلکہ واضح طور پر محاذ آرائی ابھر کر سامنے آچکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے بانی میاں نواز شریف نے قومی راز سے افشا کے حوالے سے جو بیانیہ اختیار کیا، ذاتی طور پر مجھے اس اقدام سے دلی تکلیف پہنچی۔ ہر شخص اپنا ذاتی نظریہ رکھتا ہے، اصولی موقف پر ڈٹا رہتا ہے، لیکن قومی رازوں کے افشا سے جہاں آئین سے حلف لینے کی عہد شکنی ہوتی ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر کو ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا ہے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو ایشوز پر احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، جب تک پُر امن ہیں تو کوئی ردعمل نہیں، لیکن عدم برداشت کے اس ماحول میں فریقین پر ذمے داری بڑھ جاتی ہے، سیاسی ٹمپر یچر بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کوئٹہ، کراچی اور گوجرانوالہ جلسہ سیاسی اہمیت کا حامل ضرور ہوگا، لیکن اس سے حکومت نہیں جائے گی۔ اگر کچھ گیا تو میاں نواز شریف کے بیانیہ جائے گا۔ سیاسی شخصیات یا غیر منتخب نمائندے جب اقتدار میں آتے ہیں تو کئی اہم قومی و شخصی رازوں کے امین بن جاتے ہیں، ان پر قوم سمیت ریاست کے ادارے اعتماد کرتے ہیں کہ جو کچھ اِن کیمرہ ک بریفنگ دی جائے گی،وہ ملکی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی جان قربان کردیں گے، لیکن راز افشا نہیں کریں گے۔

ریاست نے اپنے دیرینہ دشمن بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے کے لئے اپنے وسائل و دشمن کی جارحیت کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں، اب انہیں مشکوک بنانا اور عالمی برداری کو جذباتی کھوکھلا بیانیہ دینا، سیاسی عدم برداشت کا مظاہرہ قرار پائے گا، پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کی ضرورت روزِ اوّل سے رہی ہے،لیکن تلخ زمینی حقائق ہیں کہ جس جمہوریت کو سیاسی جماعتیں نظام کا منبع سمجھتی ہیں، انہوں نے خود ہی ایسے راستے عوام سے مخفی رکھے، جس کی وجہ سے جمہوری تسلسل میں رکاؤٹیں پیدا ہوتی رہیں۔ ان اقدامات کے اصل ذمے دار سیاسی قوتیں ہی ہیں، جو غیر جمہوری راستوں کی سرنگیں بناتی ہیں،میرے سامنے سیدھا سا سوال ہے کہ اگر سسٹم سے عسکری قیادت کو ہٹادیاجائے تو سیاسی قیادت کے پاس کیا بچے گا۔ کیا کسی بھی سیاسی قیاد ت میں پاکستان میں کبھی شفاف الیکشن کروانے کی روایت ڈالی ، کیا کسی نے بھی انتخابی شکست تسلیم کی۔ یقینی طور پر یہ منظر آج تک کم ازکم مجھے دیکھنے کو نہیں ملا۔

سیاسی جماعتوں کے اندر خود بے رحم آمریت ہے، تنظیم سازی اور پارٹی منشور کے مطابق چلنے کی روایات توڑنے میں سیاسی جماعتیں ہی پہل کرتی ہیں، الیکٹبیلز کو کون منتخب کراتا ہے، ہارس ٹریڈنگ کون کراتا ہے، جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف دشنام طرازی کس نے نہیں کی۔ سول عسکری قیادت کے ان کیمرہ بریفنگ کو میڈیا میں ذرائع کے نام پر اخفا کس لئے کئے جاتا ہے، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ جس کا پاس کسی نے بھی نہیں رکھا، کون سی سیاسی جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُس نے کبھی چور دروازے سے آنے کی کوشش نہیں کی۔ میرٹ کی دھجیاں کس نے نہیں اڑائی، سنیئر کو جونیئر اور جونیئر کو سینئر کس نے نہیں بنایا۔ ملک کا کون سا ادارہ ہے جسے با اختیار و غیر جانب دار بنانے کے بجائے، اپنی ذیلی تنظیم نہیں بنائی، سیاست و صحافت کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ غلطی ہم سب کی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن یا ایم کیو ایم کے بانی ہوں، سب مایوسی پھیلاتے پھیلاتے اپنے حدود سے باہر نکل گئے۔ قومی خزانے و اقتدار پر مسلط کئے جانے والے وہ شخصیات، جنہیں آج پاکستانی عوام یاد بھی نہیں۔ ریلیاں ہوں، جلسے ہوں یا پھر دھرنے یا احتجاج، ایک ایسی مملکت میں جہاں سیاسی شعور کا پودا ابھی تک تناور نہیں بن سکا، ایک قوم نہیں بن سکی اس پر کیا بحث کی جائے۔ ان سب نے مایوسی کے علاوہ قوم کو دیا ہی کیا جارہا ہے، ہر جانے والا بُرا اور آنے والے اچھا قرار دیا جاتا ہے،چند مہینوں میں پھر وہی اچھا بُرا بن جاتا ہے، ماتھے کے بل کم نہیں ہوتے، کوئی خود سے قانون کے سامنے بے خوف وخطر پیش نہیں ہوتا۔ بے ہنگم ہجوموں کے ساتھ احتساب کے اداروں کے سامنے مجمع لگانے کا شوق چڑھا رہتا ہے، انصاف ملنے میں تاخیر کا سبب بھی تو ہمارا سیاسی جماعتیں ہی ہے، کیونکہ ان کی ترجیحات میں سستا، فوری اور شفاف انصاف کبھی رہا ہی نہیں۔ انصاف کے تقاضے سیاسی فروعی مفاد سے بالاتر ہوکر ملکی سلامتی و عوام کے وسیع تر مفاد میں پورے کئے جاتے، تو دھندا تو سب کا ٹھپ ہوجانا ہی تھا، با الفاظ دیگر اپنے پیروں میں کہلاڑی کون مارتا ہے۔

ملکی سمت بالکل غلط پر جا رہی ہے، ترجیحات میں تسلسل و بردباری نہیں،مستقبل بینی پرانتہائی محدود رسائی ہے۔ فروعی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے، ہر حکومت میں اقربا پروری، بیورو کریسی پر کنٹرول، سرخ فیتے، ٹھیکوں میں بیک کمیشن اور قومی رازوں کو افشاکرنے کی دہمکیاں، عسکری قوت کو متنازع بنانا، غداری کے سرٹیفکیٹ تھوک کے حساب سے تقسیم کرنا اور سیاسی انتقام کے نام پر ہر حکومت میں قانون کے بجائے غیر جمہوری روایات کی بالادستی کو فروغ دینا،ہمارا سیاسی و معاشرتی کلچر بنتا جارہا ہے۔ سیاست کی حدود میں رہتے ہوئے ارباب اختیار یا حز ب اختلاف ہوں، انہیں یہی مشورہ ہے کہ خدارا ملکی سلامتی کے لئے مزید مشکلات پیدا نہ کریں، جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں اس کو مت کاٹیں، یہ ان کے اوروطن عزیز کے حق میں بالکل بھی بہتر نہیں۔

 Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی