لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی ویزا میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔
ذرائع کے مطابق نوازشریف نے ویزا میں توسیع کی درخواست دی تھی تاہم برطانوی حکام نے ان کی ویزا توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔
خیال رہےکہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی برطانیہ میں 6 ماہ قیام کے ویزےکی مدت ختم ہو چکی تھی جس پر انہوں نے اپنے علاج کے سلسلے میں برطانیہ میں مزید قیام کے لیے ویزا میں توسیع کی درخواست کی تھی۔
ذرائع کے مطابق برطانوی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد اب نواز شریف کے پاس 2 آپشن ہیں، ایک تو یہ کہ وہ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ میں فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کریں اور وہاں سے بھی درخواست مسترد ہونے پر وہ برطانوی عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے پاس کوئی مستند سفری دستاویز موجود نہیں ہیں کیوں کہ نوازشریف کے پاسپورٹ کی مدت 16 فروری 2021 کو ختم ہو چکی ہے۔ نوازشریف کے پاس سابق وزیراعظم کی حیثیت سے سفارتی پاسپورٹ تھا۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف برطانیہ میں ویزا کیلئے اپیل مسترد ہونے پر برطانوی عدالتوں رجوع کرسکتے ہیں، عدالتوں نے بھی نواز شریف کیخلاف فیصلہ دیا تو انہیں پاکستان ڈی پورٹ کیاجا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے پاس دو تین آپشنز ہیں، نوازشریف پاکستانی ہائی کمیشن جائیں، عارضی دستاویز لیں جس پرپاکستان آسکتےہیں، پاکستان واپس آنے پر وہ جیل میں جائیں گے اور کیسز کا سامنا کریں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ جس طرح سے نواز شریف لندن میں گھوم پھر رہے ہیں ظاہر ہے کہ وہ بیمار نہیں ہیں، نواز شریف کو جھوٹ بولنے پر برطانوی عدالتوں سے بھی سزا ہوسکتی ہے، نواز شریف کو واپس آنا چاہیے اور مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف پاکستان سے اربوں روپے لے کر فرار ہوگئے ہیں، نواز شریف پیسے واپس کریں اور آرام سے گھر میں زندگی گزاریں۔
میاں نوازشریف کی طبیعت21 اکتوبر 2019 کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی،پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
نوازشریف کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا تھا جس کے سربراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے جب کہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شامل تھے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف 16 روز تک لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبر کو ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا تاہم شریف میڈیکل سٹی لے جانے کے بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہی ایک آئی سی یو تیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی رہائش گاہ منتقل ہوگئے۔
سابق وزیراعظم کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی بتایا گیا، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔
نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر 2019 کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔
اس مقدمے میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔
ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبرکو لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔
واضح رہےکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے علاج کی غرض سے 19 نومبر 2019 سے لندن میں موجود ہیں ، عدالتوں کی جانب سے طبی بنیادوں پر ان کی ضمانتیں منظور کی گئی تھیں تاہم مقررہ مدت میں واپس نہ آنے کے بعد حکومت کی جانب سے ان کے پاسپورٹ کی مدت میں اضافہ نہیں کیا گیا اور انہیں واپس وطن لانےکے ارادوں کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔