تحریر : پروفیسر رفعت مظہر حالات خواہ کچھ بھی ہوں میاں نواز شریف کی رَگِ ظرافت ہمیشہ پھڑکتی رہتی ہے۔ اُن کی باتوں میں طنز کی چُبھن بھی نمایاں لیکن وہ کبھی غیر پارلیمانی زبان استعمال نہیں کرتے۔ جب پانچ رکنی بنچ نے اُنہیں نااہل کیا تو میاں صاحب کا اِس نااہلی پر تبصرہ یہ تھا کہ اگر کرپشن کرو تو مجرم اور اگر نہ کرو تو پھر بھی مجرم۔ لودھراں کے الیکشن میں شاندار کامیابی کے بعد میاں صاحب نے فرمایا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو جی ٹی روڈ سے نہ جانے کا مشورہ دیتے تھے ،اگر یہاں کوئی موجود ہے تو ہاتھ کھڑا کرے۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ کچھ لوگ تو جہاز سے جانے کا مشورہ بھی ٍدیتے تھے۔ دراصل میاں صاحب کہنا یہ چاہتے تھے کہ اگر وہ پانچ رکنی بنچ کے انتہائی متنازع فیصلے پر احتجاج کی راہ نہ اپناتے تو آج نوازلیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہوتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میاں صاحب کا اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ کا سفر اور ”مجھے کیوں نکالا” والا بیانیہ دھڑادھڑ بِکا اور میاں صاحب کی مقبولیت میں کئی گُنا اضافہ ہوا۔ تحریکِ انصاف کے دِل پشاور میں تاریخی جلسہ مظفرآباد میں محیرالعقول عوامی اجتماع، چکوال کے ضمنی انتخاب میں شاندار کامیابی اور اب لودھراں کا انتخاب، یہ سبھی میاں صاحب کی عوامی مقبولیت کی علامتیں ہی تو ہیں۔
لودھراں کے حالیہ ضمنی انتخاب میں نواز لیگ کے غیر معروف اُمیدوار پیر اقبال شاہ نے تحریکِ انصاف کے ایسے ”کھُنّے سینکے” کہ ساری جماعت حیران وپریشان اور ”ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویر۔ خواجہ سعدرفیق نے کہا کہ وہ 40 سالوں سے سیاست میں ہیںلیکن اُنہوں نے پیر اقبال شاہ کا نام پہلی بار سُنا ہے۔ یہ سیٹ تحریکِ انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیرترین المعروف ”اے ٹی ایم” کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد خالی ہوئی ۔عمران خاں جو ہمیشہ موروثی سیاست کی شدید مخالفت کرتے رہتے ہیں، اُنہوں نے یہاںبھی حسبِ سابق یوٹرن لیتے ہوئے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو میدان میں اتارا۔ یہ حلقہ جہانگیر ترین کا گَڑھ سمجھا جاتاہے اور یہاں سے وہ بھاری اکثریت سے جیتے بھی ہیں۔ عمران خاں کے اِس یوٹرن کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے خیال میں نوجوان علی ترین بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگا۔ اِسی حلقے سے دسمبر 2015ء میں جہانگیر ترین نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے اور اُن کی اپنے مخالف اُمیدوار پر برتری 40 ہزار تھی۔
لودھراں کے موجودہ ضمنی الیکشن میں تقریباََ تمام تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھا کہ علی ترین آسانی سے جیت جائے گا کیونکہ ایک تو پیراقبال شاہ غیرمعروف امیدوار تھے اور دوسرے نوازلیگ نے بھی اِس حلقے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی کیونکہ لیگی حلقوں میں بھی یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ تحریکِ انصاف کی پکّی سیٹ ہے اِس لیے اِس پر توانائیاں صرف کرنا محض وقت کا زیاں ہوگا۔جب نتائج سامنے آئے تو صرف تحریکِ انصاف ہی نہیں، نوازلیگ بھی حیران رہ گئی۔ پیر اقبال شاہ 26 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت گئے۔ اُنہوں نے ایک لاکھ 13 ہزار 827 ووٹ حاصل کیے جبکہ علی ترین صرف 87 ہزار 571 ووٹ حاصل کر سکے۔ اگر 2015ء کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کی 40 ہزار ووٹوں کی برتری کو شامل کر لیا جائے تو اب تحریکِ انصاف 66 ہزار ووٹوں کے خسارے میں نظر آتی ہے جو محیرالعقول بھی ہے اور ناقابلِ یقین بھی۔ شاید اِسی لیے اب تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ نوازلیگ کی یہ جیت عمران خاں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ سیاسی مبصرین یہ تبصرے بھی کر رہے ہیں کہ پاناما فیصلے کے بعد نوازشریف لہر چل پڑی ہے اور اگر اُنہیں جیل ہوگئی تو نوازلیگ انتخابات 2018ء میں دوتہائی اکثریت بھی لے سکتی ہے۔ ہم نے تو انہی کالموں میں پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ اگر میاں صاحب نااہل ہوگئے تو اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارا کہا آج سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ زور آوروں نے مذہبی جماعتوں سمیت کئی کارڈ کھیلے لیکن سبھی ناکام ہوئے اور نوازشریف اپنی مقبولیت کی رفعتوں کی طرف گامزن رہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کے خلاف کونسا کارڈ کھیلا جاتا ہے۔
جہانگیرترین چونکہ عمران خاں کے قریب ترین ساتھی ہیں اور وقتاََ فوقتاََ تحریکِ انصاف کی مالی مدد بھی کرتے رہتے ہیں ،اِس لیے خاںصاحب نے الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے لودھراں میںضمنی انتخاب سے صرف دو دِن پہلے انتخابی جلسے سے خطاب بھی کیا۔ اُن کے ہمراہ لال حویلی والے شیخ رشید سمیت اُن کی پوری ٹیم موجود تھی لیکن پھر بھی ”پیر ” جیت گیا۔ شاید یہاں ”پیرنی” کا دَم درود کام نہ آیا ہو یا پھر ”پیر” ہی اِتنا ”تَکڑا” کہ پیرنی کا بَس نہ چل سکا۔ یہ شکست عمران خاں کو قبول کرنی ہی پڑی کیونکہ انتخاب فوج کی نگرانی میں ہوا۔ اب خاں صاحب کہتے ہیں ” کامیاب قومیں ناکامیوں سے سیکھتی ہیں۔ ہم دوبارہ مضبوط ہو کر سامنے آئیں گے”۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ زندگی میں جتنی بار وہ ہارے ہیں ،اور کوئی نہیں ہارا۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ عمران خاںاپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے احتجاجی سیاست کی راہ اپناتے ہیںلیکن شکر ہے کہ اُنہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ہار جیت کھیل کا حصّہ ہوتی ہے، وہ کھیل خواہ کرکٹ کا ہو یا سیاست کا۔ اللہ کرے کہ وہ اپنی اِس بات پر قائم رہیں کیونکہ وہ یوٹرن لینے کے ماہر بھی تو ہیں۔
نواز لیگ کو مبارک ہو کہ عمران خاں نے کم از کم ایک نشست پر تو کھلے دِل سے اپنی ہار تسلیم کی اور حواری لال حویلی والے نے بھی جب شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں شیخ رشید لودھراںکے ضمنی انتخاب میں نوازلیگ کی جیت کو تسلیم کر رہے تھے ،تب ”شرارتی” شاہ زیب خانزادہ نے کہا ”اِس وقت جب تحریکِ انصاف کے سبھی لوگ مُنہ چھپائے پھِر رہے ہیں، آپ نے ہمت دکھائی اور ہمارے پروگرام میں چلے آئے”۔ کوئی شاہ زیب خانزادہ سے پوچھے کہ کیا وہ نہیں جانتے کہ شیخ رشید کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں؟۔اُن کی پیشین گوئیاں ہمیشہ غلط ثابت ہوتی رہیںپھر بھی وہ انتہائی بے شرمی سے اپنے کام میں جُتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے دَور سے لے کر اب تک اُن کا گزارہ پیشین گوئیوں پر ہی تو ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِسی میں اُن کی مقبولیت پنہاں ہے۔ پیپلزپارٹی کے عہدِ حکومت میں وہ پیشین گوئیوں پہ پیشین گوئیاں کرتے چلے گئے لیکن جب ”کَکھ” نہ بنا ۔ جب کوئی ایک پیشین گوئی بھی درست ثابت نہ ہوئی تو فرمایا ”فوج سَتّو پی کر سوئی ہوئی ہے”۔ نوازلیگ کے دَورِ حکومت میں بھی وہ اپنی ”حرکتوں” سے باز نہ آئے اورحکومت جانے کی خبریں دیتے رہے ۔اب نوازلیگ بھی اپنا عہدِحکومت پور اکرنے جا رہی ہے اور تھکے ہارے شیخ صاحب کی اگلی پیشین گوئی یہ کہ 2018ء کے انتخابات میں نتیجہ مختلف ہو گا۔