اسلام آباد (جیوڈیسک) ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کی منتقلی کی درخواست منظور کر لی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سے دوسری عدالت منتقل کرنےکی اپیل کی گئی تھی، جو نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنا چکے ہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید اور جرمانے، مریم نواز کو مجموعی طور پر 8 سال قید اور جرمانے جبکہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی منتقلی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا۔
سماعت کے دوران نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی خواجہ حارث پہلے تینوں ریفرنسز میں مشترکہ گواہوں کا بیان چاہ رہے تھے لیکن وہ تینوں ریفرنسز میں مشترکہ گواہوں پر جرح نہیں کرسکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وکیل صفائی پراسیکیوشن کے کیس کو اپنا دفاع کہہ رہے ہیں لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ نیب کا کیس ہے اور انہوں نے دفاع پیش ہی نہیں کیا۔
سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں ملزمان کا 342 کا بیان ریکارڈ ہونا ہے اور ملزمان کے پاس موقع ہے کہ وہ دیگر ریفرنسز میں اپنے دفاع میں کچھ پیش کردیں۔
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے بھی جوابی دلائل دیئے، اس دوران ان کا جسٹس گل حسن سے مکالمہ بھی ہوا۔
جسٹس میاں گل حسن نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ ہمیں چارٹ بنا کر دیں جس سے ظاہر ہو کہ کون سے الزامات مشترک ہیں اور یہ بھی ظاہر ہو کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ آچکا ہے۔
اس کے جواب میں خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قطری خط تینوں ریفرنسزکے مشترکہ شواہد میں سے ایک ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر جج صاحب ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کرلیں تو کیا ہوگا؟ کیا انتظامی بنیادوں پر کیس دوسری عدالت کو منتقل ہوسکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے ایک سے دوسرے جج کو کیس منتقل کرسکتی ہے؟
اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جب تک جج کیس سننے سے انکار نہ کردے، اُس وقت اسے دوسری عدالت کو منتقل نہیں کیا جاسکتا، ہاں لیکن سپریم کورٹ ایک سے دوسری ہائیکورٹ کیس منتقل کرنےکا حکم دے سکتی ہے۔
اس موقع پر عدالت نے پوچھا کہ کیا چیئرمین نیب کے پاس کسی اور عدالت سے احتساب عدالت کو کیس منتقل کرنے کا اختیار ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ چیئرمین نیب کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کسی احتساب عدالت سےکیس منتقل کرسکیں تاہم احتساب عدالت سے دوسری احتساب عدالت کیس منتقلی کا اختیار سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا ہے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کے پاس بھی خود سے کیس منتقل کرنے کا قانونی اختیار نہیں۔
انہوں نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار ثبوت منتقل نہیں کرسکے تو ہمیں اب فیئر چانس دیں۔