تحریر : جاوید ملک مشہور کہاوت ہے کہ دوسروں کیلئے کھڈا کھودنے والا خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سوشل میڈیا ٹیم کے بعض ارکان کی گرفتاریوں پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بے چینی دیکھ کر مجھے آج یہ کہاوت بہت یاد آئی ۔ جن دنوں سائبر کرائم بل کو منظور کروانے کیلئے حکومت کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں اور اس بل کی آڑ میں حکومت سوشل میڈیا کا گلہ گھونٹ رہی تھی ہر روز شاہراہ دستور پر میں درجنوں نوجوان دیکھتا تھا جو ہاتھ میں پلے کارڈ لئے اپنی آزادی کے سلب ہونے کیخلاف احتجاج کررہے ہوتے تھے لیکن شاید سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والا ہر شخص مسلم لیگیوں کو عمران خان کا چیلا دکھائی دے رہا تھا اسی لیئے گھٹن زدہ ماحول میں دل کا غبار اُتارنے والوں کیلئے قانونی شکنجے تیار کئے گئے۔
سوشل میڈیا پر جو اودھم مچا یا جارہا ہے اور جس طرح شائستگی کے تما م تقاضوں کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں میں ہرگز اس کا حمایتی نہیں ہوں لیکن سوشل میڈیاپر عوام الناس اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتی تھی اور مسائل سے بھرے گھٹن زدہ معاشرے میں یہ آزادی بھی غنیمت ہی تھی لیکن مسلم لیگ (ن)نے ایک طرف تو اس پر قدغن لگائی دوسری طرف ایک منظم سوشل میڈیا ٹیم بھی بنا ڈالی جو باقاعدہ منصوبے سے مخالفین کی عزتیں اچھالتی تھی اور پھر اس ٹیم کے ہاتھ اداروں کے گریبانوں تک بھی جاپہنچے ایک معاصر قومی اخبار کے مطابق یہ سوشل میڈیا ٹیم سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی سے احکامات لیتی تھی اور ان کی بھاری تنخواہیں بھی مختلف کارپوریشنوں سے ادا کی جاتی تھیں ۔اب اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو آزادی رائے پر حملہ قرار دینے والے سابق وزیر اعظم کا بیان میرے لیئے اچھنبے کا باعث ضرور ہے۔
نوازشریف کو پانامہ فیصلے کے بعد ہر کام کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ دکھائی دیتا ہے وہ خود تو معزول ہو گئے لیکن شاید وہ بھول گئے کہ ابھی تک ان ہی کی پارٹی برسر اقتدار ہے ۔ اڑیل وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی اب سابق ہوچکے ہیں اور ان کی مسند پر میاں جی کے انتہائی قابل وفادار احسن اقبال براجمان ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے کیرج فیکٹری کالونی سے گرفتار ہونے والے سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ دونوں اراکان انور عادل اور واجد رسول کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا اور ان کی ضمانت بھی ہوگئی مگر نوازشریف نے اس گرفتاری کو بھی گمشدگی قراردے کر ایک بار پھر شاید پہلے سے کھول رکھے محاذ سے تازہ گولہ باری کرنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے شہر اقتدار میں یہ خبر گرم ہے کہ مسلم لیگ(ن) اب سوشل اور دیگر میڈیا پر عدلیہ کی کھلی تضحیک اُڑانے اور بعض جج صاحبان کی ذاتی زندگیوں پر بھی کیچڑ اچھالنے کا منصوبہ بنا چکی ہے اور ممکن ہے ایف آئی اے نے یہ گرفتاریاں بھی اسی تناظر میں ہی کی ہوں ۔ نوازشریف اور ان کی ٹیم نے پانامہ فیصلہ کے بعد جو دھماکہ جوکڑی مچائی اور محاذ آرائی کا جو راستہ اپنایا اس کے بعد لوگ پیپلز پارٹی کے صبر کو یاد کررہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے آصف زرداری کی طویل گرفتاری تک بے نظیر بھٹوکی نظر بندی سے عدالتوں میں مسلسل پیشیوں تک کبھی بھی پیپلز پارٹی نے اداروں پر کیچڑاچھالا نہ ان کے خلاف محاذ آرائی کا راستہ اپنایا لیکن نواز شریف خاندان کیخلاف جب بھی کسی عدالت نے فیصلہ دیا یا ان کو طلب کیا انہوں نے نظام عد ل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور اب تو نواز شریف اینڈ کمپنی نے تمام اداروں کی ساکھ کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کرکے ایک ایسے بحران کو جنم دیا ہے جس کے نتیجہ مجھے اچھا دکھائی نہیں دے رہا ۔ اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی اپنی پارٹی میں معاملہ اختلافات سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے اور آنے والے چند دنوں میں ہی شاید کوئی فاروڈ بلاک سامنے آجائے کیونکہ اکثریتی لیگی ارکان اسمبلی محاذ آرائی کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔
سیاسی درجہ حرارت کو حکومتیں فہم و فراست سے کم کرتی ہیں تاکہ نظام حکومت چلتا رہے لیکن جہاں حکومت خود ہی ہر روز اس درجہ حرارت کو بڑھاتی چلی جارہی ہو وہاں کچھ بھی بہتر ہونے کا امکان از خود دم توڑ جاتا ہے ۔شہر اقتدار میں جب خنکی دستک دیتی ہے تو اکثر اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے اور گزشتہ روز طویل عرصے کے بعد بادل شہر اقتدارپر برسے ہیں آج موسم بہت خوش گوار ہے ان مست ہواؤں میں چھپی سرگوشیاں کچھ بدلنے کا اشارہ دے رہی ہیں ۔۔۔ مجھے لگتا ہے اس سال کے خاتمے سے پہلے بہت کچھ بدل جائے گا۔