تحریر: آصف لانگو جعفرآبادی دوستوں ! سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اکثر غریب ہوا کرتے ہیں۔ پین، پنسل اور کتابیں خریدنے کے بہانے اکثر غریب و مفلس بچے گھر سے ایک دو روپیہ لیکر پیٹ پر خرچ کر لیتے ہیں۔ ضروریاتِ علم کو پورا کرنے کے لئے بچے ایک دوسرے کی چوریاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں چوریاں کم ہوتے ہیں کیونکہ وہاں امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں جن کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ چونکہ میری ابتدائی تعلیم بھی ایک عام پرائمری سر کاری اسکول سے ہوئی ہے تو چوریاں بہت ہوتی تھیں۔ بچوں کو بہت سی سزائیں بھی ملتی تھیں۔ یاد تو بہت سے واقعات ہیں لیکن ایک ایسا واقعہ جو مجھے بہت یاد آتا ہے بلکہ موجودہ سیاسی صورتحال کو مد ِ نظر رکھتا ہوں تو یہ واقعہ عمران خان، طاہر القادری اور میاں نواز شریف گروپ کے لئے بہت سوٹ ایبل محسوس ہوتا ہے اور اس سے مجھے ساراقصہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔
ایک دفعہ بچپن میںسکول کلاس روم میں ایک بچے کی پین ، پینسل اوردیگر کافی چیزیں گم ہوگئیں، کچھ سامان کی حالت زار ہی تبدیل تھی اور کچھ کتابیںپھاڑی ہوئی تھی۔ جس کی چوری ہوئی تھی بچے نے فوری طور پر استاد سے رجوع کیا لیکن استاد اپنی دیگر اساتذہ کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا اُستاد نے مانٹیر کو بلواکر مانٹرینگ کا اور سب کی تلاشی کا حکم دے دیا ۔ مانیٹر نے کلاس کے تمام طلباء کو کھڑا کر کے سب کی تلاشی لینا شروع کر دی ۔ تلاشی کے دوران مانیٹر کا دوست تلاشی دینے سے انکارکر رہا تھا کہ میں نے چوری تھوڑی کی ہے کہ میں تلاشی دوں ۔ کمرے میں کچھ لڑکوں نے غصے میں کہا کہ سب کی تلاشی ہوئی ہے ، سب نے تلاشی دی ہے۔ آ پ آ سمان سے تو نہیں اترے کہ آ پ کی تلاشی نہ لی جائے۔یہاں سب طلباء متوجہ ہو گئے تو تلاشی لینے اور دینے والا اتفاق سے ایک دوسرے کے کافی کلوز دوست تھے تو دوستی کا فرض اور ملی بھگت کا جھٹ خیال آ گیا تھا اور سب کی توجہ کی وجہ سے مانیٹر نے تلاشی کا فیصلہ کیا تو تلاشی لینے والے نے اس دوران نا چاہتے ہوئے پینسل اپنے دوست کے بستے سے باہر نکالا تو جس کی چوری ہوئی تھی پریشانی کی وجہ سے کہیں اور متوجہ تھا۔ مانیٹر نے فائدہ اٹھا تے ہوئے چوری شدہ سامان واپس رکھ دیا اور پھرتلاشی کو آ گئے جاری رکھا۔ جس کی چوری ہوئی تھی نے یقین کر لیا تھا کہ کہ چوری کسی نا کسی نے ضرور کی ہے۔ مانٹیر نے تلاشی کو ختم کر دیا ۔ مدعی نے ایک لڑکے پر شک کا اظہار کیا کیونکہ وہ پہلے ایسے واقعات میں ملوث رہا ہے تو مانیٹر سے کہا کہ فلاں کی تلاشی لو مجھے اُس پر شک ہے ۔ اب مانیٹر بھی اپنے ساتھی کی بچاؤ میں سنجیدہ تھا ۔ مانیٹر نے اس بات کو نظر انداز کیا اور چھٹی کو ریمانڈر کر وایا کہ اب چھٹی ہونے والی ہے ۔ خیر ہے آ پ اپنے سامان کو بھول جاؤ ۔ لڑ کا اپنی صفائی میں زیادہ تو کچھ نہیں لیکن میں چور نہیں ہوں ، میر ی تلاشی لینا غلط ہے جیسی باتیں بار بار دہرا رہا تھا ۔ مزید چور بار بار بولتا رہا کہ میں نے چور ی نہیں کی ہے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
مدعی جس کی چوری ہوئی تھی وہ حیران تھا کہ اس نے چوری نہیں کی ہے تو تلاشی دوبارہ کیو ں نہیں دے رہا ہے اور تلاشی نہ دینے کی کیاوجہ ہے؟ اپنی صفائی میں دوبارہ تلاشی میں کیا فرق پڑتا ہے جبکہ اگر اُ س کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو ۔۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور آ خر کار چھٹی ہو نے کو تھی۔دروازے کے پاس کھڑا ہو کر دھرنا دیا، مانیٹر اور لڑکوں نے دھرنے کی وجہ پوچھی تو تو مدعی کو جس پر شک تھا مجرم قرار دیا اور اپنی سامان کی ڈیمانڈ کرنے لگا۔ لڑکوں میں سے کچھ چور کے حق میں تو کچھ مدعی کے حق میں ہوگئے۔ مدعی نے موقف اختیار کیا کہ مانیٹر بھی ملوث ہے ۔ کلاس کا استاد آ یا تو بجائے خود تلاشی لیکر بات ختم کرنے کی خود ہی کنفیوز ہو گیا کہ اب استاد کیا کرے ؟؟ اس طرح چور بچ بھی رہا تھا جس کی چوری ہوئی تھی پریشان ہوتا جا رہا تھا۔ آ خر کار احتجاج تیز کر دیا اور رونا شروع کر دیا۔ بات ہیڈ ماسٹر تک گئی۔ ہیڈ ماسٹر آ گیا اور تلاشی لینے کا فیصلہ کیا تو وہ لڑکا کلاس سے بھا گنے لگا اور پکڑا گیا سامان بر آ مد ہو گئے اور چور کو سز بھگتنا پڑا ۔اسکول سے نکالا بھی گیا۔ ہیڈ ماسٹر نے کیا خو ب فرمایا تھا کہ” ملزم کی خاموشی جرم کا پہلا ثبوت ہوتا ہے۔
Nawaz Sharif
ملزم کی اپنی صفائی پیش نہ کرنادوسرا ٹھوس ثبوت ہوتا ہے موجودہ سیاسی بحرا ن بھی کچھ ایسے ہی نظر آ رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی اپنی دفاع میں صفائی پیش نہ کرنا ، عہدے سے استیفی ٰ دیکر تلاشی نہ دینا اور ضد کر کے پانچ سال پوری کرنا ایسے ہی ہے جیسے کلاس میں چور کی حالت تھی۔ نواز شریف نے اپنے ساتھیوں و مانیٹر کے ساتھ مل کر چور کی ہے۔ مانٹیر الیکشن کمیشن نے کچھ بر آمد بھی کی ہے ۔ 70فیصد جعلی ووٹ کی تصدیق کرتا ہے نواز شریف کو بجائے سزا دینے کے کے نظر انداز کر دیا ہے، عمران خان کا دھرنا جاری ہے پرنسپل سے مراد سب سے طاقور قوت آ ئے تو ممکن ہے کمپرومائز کر کے نواز شریف ایک بار پھر بھاگ جائے۔ دراصل چوری ہوئی ہے اور چوری ثابت بھی ہو چکا ہے۔ چوری کی تحقیات سے چند ایک کو فائدہ ملا چند ایک کو ناکامی لیکن چوری کی سزا نہیں ملی کسی ایک کو بھی ۔۔ مگر کیوں ؟ کیا الیکشن ٹربیونل اور الیکشن کمیشن کی قانون میں سختی نہیں ؟ الیکشن ٹربیونل نے جہاں جہاں تحقیقات کی وہاں سے کم از کم 70 فیصد جعلی ووٹ ثابت کیے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے 70 فیصد ووٹ جعلی ہیں یہ مینڈیٹ نہیں بلکہ جعلی جمہوریت ہے۔پاکستان عوامی کی پریشانیاں تو بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں لیکن سیاسی قیادت اور فوجی انتظامیہ سمیت سب کو اس وقت بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ملک و قوم کی حالت اُ س مریض کی سی بنتی جا رہی ہے جو کہ شدید زخمی ہے جس کے جسم کی تمام اعضاء میں تکلیف و درد ہے۔ کوئی ایک زخم ٹھیک یا کم ہونے کے بجائے دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی اس مریض کی طرح ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ ، قبائلی علاقوں میں فوجی آ پریشن، کراچی میں بھتہ و ٹارگیٹ کلنگ ، اسلام آ باد میں انقلاب و دھرنا ۔۔ یہ تو سیاسی و انتظامی مسائل ہیں لیکن مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن جیسے اجتماعی مسائل بھی تو بہت زیادہ ہیں۔ ہائے اللہ ! پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟ اقبال فرماتے ہیں کہ
اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشان کو وہ داغ محبت دے جو چاند کو شر ما دے
جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سب سے بڑا ذمہ دار وقت کی حکومت ہی ہے۔ ہمیں سیاسی بحران کامستقبل حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک پاکستان کے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلام آ باد پر چڑھاؤ سب سے بڑا سیاسی بحران ہے ۔ میڈیا اور تجزیہ نگاروں سمیت متعدد عوام الناس بھی دو حصوں میں تقسیم ہو ئے ایک عمران و قادری کی حق میں دوسرا ان کے خلاف۔ ہرانسان کو سوچ و فکر کی طاقت اللہ نے خوب بخشی ہے ۔ ہم اپنی سوچ و فکر کو کچھ میڈیا کے نمائندوں اور تجزیہ نگاروں کی محتاج سمجھتے ہیں جیسے یہ لوگ کہتے ہیں ہم بھی ان کی باتوں کو درست مان کر ان کی فیصلے کو اپنا فیصلہ مانتے ہیں۔ لیکن اپنی سوچ و فکر کی طاقت استعمال نہیں کرتے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام آ باد چڑاؤ تو کی ہے مگر کیوں ؟ کس لئے ؟ کن وجو ہات کی بنیاد پر؟ یہ تین سوال انتہائی اہم ہیں ۔ قادری و خان کو کیا تکلیف پہنچی ہے کہ یہ لوگ ہزاروں ساتھیوں سمیت اسلام آ باد کی شاہراہوں پر در بدر ہیں ؟ ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف اور قادری نظام کے ساتھ ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی ایف آ ئی آ ر درج نہ ہونے کے خلاف ہیں۔ تو ان کا قصور کیا ہے ؟ بالکل درست کر رہے ہیں۔ کاش ! ایسا قدم پچھلے سیاستدانوں نے اٹھایا ہوتا تو پاکستان آج معاشی و ٹیکنالوجی دنیا میں ایک نام ہوتا۔ لیکن اب پاکستان کا نام دہشت گردستان یا لوڈشیڈنگستان کے تصور سے مشہور ہے۔
محترم قارئین ! ہم اپنے دل و دماغ سے اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر یہ فیصلہ کریں کہ قادری اور خان کا ایجنڈے غلط ہے یا نہیں ؟ ہم سب ان کے ایجنڈے کی حمایت بھی کرتے ہیں اور ان کے خلاف بھی ہیں۔ عمران خان نے میاں نواز شریف سمیت دیگر کئی لوگوں پر الزام عائد کی ہے کہ ان لوگوں نے دھاندلی کروائی ہے۔ مین کردار میاں نواز شریف ہیں ان پر ان کا الزام ہے مگر میاں نواز شریف اپنی صفائی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف عمران خان کا چور ہے۔ میاں نواز شریف کی خاموشی اور چوری کے الزامات میں خود کی صفائی، تلاشی نہ دینا چوری کی ثبوت ہے۔ اب یہ عوام پر انحصا ر کرتا ہے کہ عوام کس کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ عمران خان کو واویلا کرنے کی نظر سے دیکھتا ہے یا نواز شریف گروپ کو چور کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔