تحریر : عماد ظفر عدالتی قتل کے بعد نواز شریف کے پاس دو راستے بچتے تھے. پہلا راستہ سیدھا اور آسان تھا. نواز شریف چپ کر کے گھر کی راہ لیتا. شہباز شریف یا چوہدری نثار میں سے کسی کو بھی وزیراعظم بنواتا اور مریم نواز سمیت سیاست سے ہمیشہ کیلئے کنارہ کش ہو جاتا. یہ راستہ آسان تھا اور اقتدار پر اس کی جماعت کی گرفت رکھنے کیلئے موزوں ترین. دوسرا راستہ وطن عزیز کی ان دیکھی قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا تھا. عوام سے رجوع کرنے کا تھا. یہ راستہ انتہائی پرخوار اور دشواریوں سے بھرا ہوا تھا.یار رکھیے گا یہ وہی راستہ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے 70 کی دہائی میں اپنا تختہ الٹے جانے کے بعد چنا تھا. بھٹو نے اقتدار کے چھن جانے کے بعد عوام سے رجوع کیا اور اس کے جلسے جلوسوں میں عوام کے سمندر کی شرکت نے دراصل نے اس کے ڈیٹھ وارنٹ پر سائن کر دئیے. نواز شریف نے بھی موجودہ حالات میں اسی راستے کو چننے کا فیصلہ کیا ہے.شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا ، مشاہداکہ خان جیسے بے باک اور غیر جمہوری طاقتوں کے ناپسندیدہ فرد کو دوبارہ کابینہ کا حصہ بنانا اور اس کے بعد راولپنڈی سے لاہور کا سفر جی ٹی روڈ کے ذریعے کر کے عوام کے اجتماعات سے خطاب کا فیصلہ درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ “روک سکو تو روک لو”. اب نواز شریف دب کر نہیں بیٹھے گا. نواز شریف کے طرز حکومت سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن نواز شریف اس وطن میں وہ واحد شخصیت ہے جو “فرشتوں ” کو چیلنج کر سکتا پے یا پھر جس کے پاس “فرشتوں” کے بنائے گئے بیانیے سے ہٹ کر اپنا خود کا ایک بیانیہ موجود ہے. یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اب کسی بھی صورت مقتدر حلقوں کو قابل قبول نہیں ہے. نواز شریف کے جی ٹی روڈ سے سفر کےارادے اور خواہش پر انہیں آگاہ کیا جا چکا ہے کہ ان پر دہشتگردی کے حملے کے پیش نظر ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں.ان کے اکثر رفقا اس سفر کو بذریعہ موٹر وے کروانے پر بضد تھے تا کہ خطرات کم ہوں.
جی ٹی روڈ سے نواز شریف نے پھر بھی سفر کرنے کا رسک اٹھا لیا ہے. یہ سفر اور عوام کا جم غفیر ان کے سیاسی مستقبل کو نہ صرف زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہو گا بلکہ عدلیہ کے ایک متنازعہ فیصلے کی دھجیاں بھی بکھیرنے میں کامیاب ہو جائے گا. نواز شریف کو نااہل کروانے والے خفیہ ہاتھ اس امر سے نجوبی واقف ہیں کہ اگر نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم تیز کر دی تو نہ صرف وہ اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ عوامی مقبولیت کے دم پر واپس مسند اقتدار میں آ جائیں گے. راقم پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ پنجاب کے ووٹر کا مزاج اب تبدیل ہو چکا ہے روایتی طور پر ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے کو حرف آخر ماننے والا پنجاب کا ووٹر اب نہ صرف اس بیانیے کو قبول کرنے سے انکاری ہے بلکہ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ نظریاتی وابستگی کا بارہا ثبوت بھی دے چکا ہے. عدلیہ اور نادیدہ قوتوں کے گٹھ جوڑ اور پھر نواز شریف کو ایک مضحکہ خیز فیصلے کے ذریعے نااہل کروا کر دراصل اس ملک میں نادیدہ قوتوں نے بزات خود جمہوری اور غیر جمہوری بیانیے کی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کر دیا ہے. اب یا تو نواز شریف کا انجام ذوالفقار بھٹو یا بینظیر جیسا ہو گا یا پھر نواز شریف ملکی تاریخ میں وہ پہلا لیڈر بن کر ابھرے گا جو طاقت کا اصل توازن جمہوری پلڑے میں ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گا.
طائر القادری کی وطن واپسی اور مشرف کی بھی جلد واپسی کے بعد نادیدہ قوتیں ان دونوں مہروں کو تحریک انصاف کے ساتھ ملوا کر ایک اور احتجاجی تحریک کا آغاز کروائیں گی. یاد رہے کہ اس سارے کھیل کا اصل مقصد اگلے انتخابات کو منعقد ہونے سے روکتے ہوئے کسی بھی طرح اسمبلیاں تحلیل کر کے ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کا ہے. نواز شریف اگر اگلے عام انتخابات تک ان سازشوں کے چنگل سے نکلتے ہوئے جمہوری طاقتوں کے ساتھ ملکر انتخابات منعقد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر شاید پاکستان میں عوامی مینڈیٹ کو کبھی عدلیہ اور کبھی بندوقوں کے دم پر ہائی جیک کرنے کا یہ عمل مکمل طور پر ختم ہو جائے گا. تاریخ ہمیشہ وہ لوگ بناتے ہیں جو رسک اٹھانا جانتے ہیں ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو نے رسک اٹھایا اور گو اپنی جان سے ہاتھ تو دھو بیٹھے لیکن تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے. نواز شریف تاریخ کو یکساں طور پر تبدیل کرتا ہے یا بھٹو کی مانند تاریخ کے اوراق کا حصہ بنتا ہے دونوں ہی صورتوں میں وہ فتح یاب ہو گا. جی ٹی روڈ سے شروع ہونے والا نواز شریف کا یہ سفر دراصل ملکی سیاست کے رخ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.
وکلا تحریک کے دوران معزول چیف جسٹس نے جب جی ٹی روڈ سے لاہور تک سفر کیا تھا تو عوام کے جم غفیر نے سڑکوں پر آ کر ان کا استقبال کر کے اس وقت کے حاکم پرویز مشرف اور ایسٹیبلیشمنٹ کی اخلاقی برتری کو ختم کرتے ہوئے اپنا وزن افتخار چوہدری کے پلڑے میں رکھ دیا تھا آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے اگر نواز شریف کے جی ٹی روڈ کے اس سفر میں خلق نے جوق در جوق آ کر نواز شریف کا استقبال کیا تو پھر عدلیہ اور نادیدہ قوتوں کے پاس پسپائی اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچے گا. اگر نواز شریف کو بی بی کی مانند پراسرار طریقے سے ختم کرنے کی مزموم کوشش نہ کی گئی تو یہ کہنا ہر چند مشکل نہیں کہ نواز شریف جمہوری بیانیے کا علم تھامے فاتح بن کر نکلے گا. جی ٹی روڈ پر فیصلہ کن معرکے کے پہلے راؤنڈ کا نتیجہ چند روز میں سب کے سامنے آ جائے گا. فی الحال تو نواز شریف کی جماعت واقعی غیر جمہوری قوتوں کو کھلم کھلا پیغام دے رہی ہے کہ “روک سکو تو روک لو”.