تحریر : کھئیل داس کوہستانی مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کی طویل تفتیش اور عدالتی کارروائی کے دوران ہر طرح چھان پھٹک کی گئی لیکن نوازشریف پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ سرکاری خزانہ لوٹنے اور سرکاری عہدے کے ناجائز استعمال کے ثبوت بھی دستیاب نہیں تھے۔ ان پر یہ الزام بھی ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے اربوں کے اثاثے غیر قانونی طور پر بنائے ہیں۔ نوازشریف پر کمیشن یا کک بیک لینے کے الزامات بھی عائد نہیں کیے گئے۔ انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لینے اور اسے چھپانے کے الزام میں تاحیات نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف آراء کا اظہار کررہے ہیں لیکن قانونی ماہرین نے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال اس فیصلے سے یہ بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کا دامن ہر طرح کی آلائشوں سے پاک ہے وہ اپنے فرائض دیانت داری سے ادا کرتے رہے ہیں لہٰذا ان کے مخالفین کا کیا گیا پروپیگنڈا اس فیصلے سے خود ہی غلط ثابت ہوجاتا ہے۔
نواز شریف نے نہایت اعتماد کے ساتھ اپنے اور اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے۔ اس فیصلے سے نوازشریف کے اس دعوے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ مسلم لیگ(ن) کے لئے ناقابل قبول ہے مگر بوجوہ اسے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ وہ قوتیں جو عوامی مینڈیٹ کی توہین کرنا چاہتی تھیں اور نوازشریف کو برسراقتدار نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں اب بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس فیصلے کے بعد نوازشریف مجرم نہیں بلکہ مظلوم بن کر ابھریں گے۔ وہ ایک عوامی قائد ہیں اور کئی دہائیوں سے پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔ عوام نے ہی انہیں تیسری بار وزیر اعظم منتخب کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور نوازشریف نے بھی عوام کو مایوس نہیں کیا، انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کردیا۔ ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ، کراچی میں قیام امن، معیشت کو بحال کرکے اسے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کرنا، ملک بھر میں شاہراہوں اور موٹرویز کا جال بچھانا اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور چین کا مشترکہ عظیم منصوبہ سی پیک بنانا۔ پہلے انہیں ان کی حکومت برطرف کرکے اس بات کی سزا دی گئی کہ انہوں نے بھارت کے جواب میں ہر خوف اور لالچ کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ اس بار انہیں سی پیک تعمیر کی سزا دی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے چار سال سے زائد دور حکومت میں پاکستان کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھا اور ایران عرب تنازع، قطر بحران اور سعودی – یمن تنازع میں غیر جانبدارانہ پالیسی بنا کر نہایت دانشمندانہ فیصلے کئے۔ وزارت عظمیٰ سے برطرفی سے پہلے بھی وہ عوام کے محبوب قائد تھے اور اب عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ میں پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں نوازشریف کو مکمل طور پر غالب آتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ یہ پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ اس ملک میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور ایک مخصوص لابی اپنے مذموم سازشوں کے ذریعے ہمیشہ عوامی نمائندوں کی توہین کرتی رہی۔ لیاقت علی خان ہوں یا بھٹو، بے نظیر بھٹو ہوں یا نوازشریف سب کی حکومتوں کے خلاف مکروہ سازشیں کرکے ان کی حکومتیں برطرف کی گئیں۔ میں ایک عام سیاسی طلب علم کی حیثیت سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس ملک کے عوام کے آخر کب اقتدار اعلیٰ کے مالک بنیں گے۔ اور کب تک ایک مخصوص لابی عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتی رہے گی۔
سازشوں کے ذریعے حکومتیں بدلنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے مگر وطن عزیز میں 70 برس سے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ نوازشریف تیسری بار اس گھناؤنے کھیل کا شکار ہوئے ہیں اور بعض اپوزیشن رہنما اس مخصوص لابی کے پٹھوں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ عمران خان نے نوازشریف کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کبھی تسلیم نہیں کیا، دھرنے، احتجاج، لاک ڈاؤن، ریلیاں، دارالحکومت کو مفلوج کرنے سمیت ہر وہ کام کیا جس سے نواز حکومت کا خاتمہ ممکن ہو۔ لیکن اب بھی وہ مسلم لیگ کی حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسری جانب سابق ڈکیٹر آمر جنرل پرویز مشرف ہیں جن پر آئین سے غداری کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ وہ نوازحکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے عدالتی فیصلے کے بعد اس امر کا اظہار کیا ہے کہ نوازشریف کی نا اہلی نے میری وطن واپسی کی راہ ہموار کردی ہے،۔ نوازشریف نے برطری کے بعد بالکل درست کہا ہے کہ اس قسم کی سازشوں سے ملک حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سندھ تک محدود ہونے کے بعد اب مسلم لیگ نواز ہی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں اور وفاق کے ساتھ ساتھ دو صوبوں اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کی ہی حکومتیں ہیں۔ اس پارٹی کو کمزور کرنے اور اس کی قیادت کے خلاف سازشیں کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ وفاق کو کمزور کررہے ہیں۔
نوازشریف کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ میرا ضمیر مطمئن تھا اس لیے میں استعفیٰ کیوں دیتا؟ جو غیر جمہوری قوتیں ان سے استعفیٰ کی فرمائش کررہی تھیں اور جواباً نوازشریف نے انکار کردیا۔ اس صورت میں میرا خیال ہے کہ نوازشریف جمہوریت کے چمپئن بن کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کے محافظ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ 25 سال قبل وہ اتنے نظریاتی نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ یہ قوم کے لئے نہایت خوش آئند بات ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ نوازشریف کے اتحادی بھی اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے باوجود مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی، پیر پگارا صاحب نے حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنے اور مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں محمد نوازشریف کی قیادت پر اظہار اعتماد کیا گیا بلکہ 45 دن کے لئے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شاہد خاکان عباسی اور مستقل وزیر اعظم شہبازشریف کے ناموں کی تصدیق بھی کی گئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کل بھی متحد تھی اور آج بھی متحد ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے نام پر ہی تقسیم ہوگی۔ جبکہ شاہد خاکان عباسی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں اور ایم کیو ایم نے بھی عباسی صاحب کو ووٹ دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کے ویژن اور ان کی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ میں نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کی۔ میرے تفکرات دیکھ کر انہوں نے بھی تسلی دی اور آپ فکر مت کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نوازشریف کے حوصلے بلند تھے اور انتہائی مطمئن دکھائی دے رہے تھے اور آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ الیکشن قریب ہیں اور 2018 ء میں ہونے والے الیکشن ایک بار پھر ثابت کردیں گے کہ وہ کسی کے مہرے اور پٹھوں کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ اپنے عوامی قائد محمد نوازشریف کے ساتھ ہیں۔ ختم شد