تحریر : سید انور محمود دو ہزار آٹھ سےاب تک ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کے کارناموں پر کئی مضامین لکھے تو اسکا عنوان بنانے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی، مثلاً جب وہ اقتدار سے رخصت ہورہے تھے تو انکے بھائی نواز شریف نے ایوان وزیراعظم میں صدارت سے رخصت ہوتے وقت ان کو ایک الوادعی ظہرانہ دیا۔ ظہرانے میں نواز شریف نے زرداری کے حوالے سے کہا کہ ’’صدر زرداری کوباوقار طریقے سے رخصت کرکے تاریخ رقم کی ہے‘‘، ہمیں فوراً عنوان مل گیا کہ’’تو مجھے حاجی کہہ میں تجھے حاجی کہوں‘‘۔ پھر پیپلز پارٹی کے جیالوں اور آصف زرداری کے کرپٹ ترین وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آصف زرداری صدارت سےاور پیپلز پارٹی حکومت سے باعزت رخصت ہوئے ہیں تو ہمیں اپنے نئےمضمون کے لیے فوراً نیاعنوان مل گیا ’’آصف زرداری پر ایمانداری کا کوئی داغ نہیں ہے‘‘۔ ایک مرتبہ پھر آصف زرداری کے کرپشن پر لکھ رہے تھے ، زردای نے کوئی کونہ نہیں چھوڑا تھا جہاں انکی کرپشن نہ ہو، ایمینسٹی انٹرنیشنل سے بھی یہ ہی رپورٹ ملی کہ جناب اس بندے نے کرپشن کے تمام ریکارڈ اپنے نام کیے ہوئے ہیں، اگلے دن ہمارئے دوست بے باک ملنے آئے تو ہم نے ان کو ساری کہانی بیان کی اور عنوان کے لیے مدد چاہی تو بولےچلو سوچتے ہیں ، ہم نے کہا یہ بھٹو کا داماد ہے اور یہ حرکتیں، بے باک فورا بولے عنوان مل گیا ہے لکھو’’ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور آصف زرداری پر ایمانداری کا کوئی الزام نہیں ہے‘‘۔ ہم نے بےباک صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دن ہمارا مضمون تیار تھا۔
اپریل 2016 میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے اہل خانہ کا پاناما پیپرز کی لیکس میں نام شامل ہونے پر ان سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، پاناما پیپرز کی فہرست میں نواز شریف کے بیٹے حسن نواز، حسین نواز اوربیٹی مریم نوازکے نام شامل ہیں ۔ نواز شریف نے یہ کہہ کر اس الزام کو ماننے سے انکار کردیا کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ یکم نومبر 2016 سے یہ کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا، اب 20 اپریل کو اس کا فیصلہ کچھ اس طرح آیا ہے کہ جنہوں نے کیس کیا تھا وہ کہہ رہے کہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ نواز شریف بدعنوان ہیں لہذا ہم مٹھائی کھارہے ہیں، نواز شریف کے حلقے میں بھی مٹھائی ہی مٹھائی ہے اور انکا دعوی ہے کہ اگر نواز شریف مجرم ہوتے تو وزیر اعظم نہ رہتے۔ اس موضوع پر ہمیں بھی ایک مضمون لکھنا تھا لیکن ہم عنوان میں پھنسے ہوئے تھے کہ جناب بے باک ملنے آگئے، ہم نے حسب دستور اپنی پریشانی سنائی تو بولے بھائی اس مضمون کا عنوان تو فیس بک پر ایک صاحب لکھ چکے ہیں آپ بھی لکھ لیں ’’ نواز شریف کوبے عزت بری کردیا گیا‘‘۔ عنوان تو ہمیں پسند آیا لیکن کیا یہ عنوان نواز شریف کی ان بدعنوانیوں کے مطابق ہے جو نواز شریف خاندان کی تین نسلیں کرتی چلی آرہی ہیں، کم از کم اس کا فیصلہ تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔
پانامہ پیپرز کے سلسلے میں20 اپریل 2017 کے فیصلے کی اہمیت یہ ہے کہ نواز شریف کی وزارت عظمی بچ گی اور و ہ جاتی عمرہ جانے سے بچ گے، اس کے علاوہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے بینچ مارک 100 انڈیکس میں 1800 پوائنٹس کا اضافہ ہوگیا۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے 540 صفحات سے زیادہ کی ایک رپورٹ میں شایع بھی کیا ہے، جو نہ تو نواز شریف پڑھینگے اور نہ ہی ان کے مخالف، آصف زرداری جنہوں نے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کی ہے وہ بھی نہیں پڑھینگے، شاید اعتزاز احسن پڑھ لیں۔ اس فیصلے کی موٹی موٹی باتیں نواز شریف اور ان کے مخالفین اپنے وکیلوں سے پوچھ لینگے جو ان کو بتاینگے کہ سپریم کورٹ نے کسی زمانے میں بنی ہوئی ایک پاکستانی فلم (شاید۔۔۔ یکے والی) کی عدالت کے ایک سین کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ فلم کا سین یہ تھا کہ دو بندئے ایک جگہ کھڑئے ہوئے آپس میں لڑرہے تھے ، ابھی وہ لڑہی رہے تھے کہ ایک اور بندہ اپنے سر پر چارپائی اٹھائے وہاں آیا اور اپنی چارپائی زمین پر رکھی اور دونوں سے پوچھا کہ کیوں لڑرہے ہو میں ماما جی ہوں میں عدالت لگاتا ہوں جس میں تماری لڑائی کا فیصلہ کرونگا۔ ان میں سے ایک بولا کہ ماما جی میں کہتا ہوں کہ یہاں ’بھٹی بننی چاہیے‘، دوسرا بولا ماما جی میں کہتا ہوں کہ یہاں ’بھٹی نہیں بننی چاہیے‘۔ ماما جی نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر کہا، ماماجی کی عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ ’تو بھٹی بنائے جا اور تو بھٹی ڈھائے جا‘۔ سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلے کو آپ اس فلمی سین کی کاپی بھی کہہ سکتے ہیں جس میں وزیراعظم نواز شریف کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی حکومت جاری رکھیں جبکہ عمران خان اور دوسرں سے کہا گیاہے کہ وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ ماما جی کی عدالت معاف کیجیے گا سپریم کورٹ کے فیصلےسے دونوں خوش ہیں لہذا نواز شریف اور عمران خان کے حامی مٹھائی کھا بھی رہے ہیں اور بانٹ بھی رہے ہیں، ساتھ ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سرمایہ کار بھی مٹھائی بانٹ رہے ہیں۔
دو نومبر 2016کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ایک میچ ‘‘اسلام آباد لاک ڈائون’’ ہونا تھا جس کی بنیاد پاناما پیپرزتھے، اس میچ میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اسلام آباد کو مکمل بند کرنا تھا جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گی، اس میچ سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے اپنےپہلے سے اعلان کردہ یکم نومبرکوپاناما لیکس کے معاملے پر کارروائی کا آغاز کیا۔ عدالت نے الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا جسکو دونوں فریقین نے تسلیم کیا ۔ افسوس عمران خان دو نومبر کا میچ یکم نومبر کو ہی ہا ر گئے تھے۔ یکم نومبرکو عمران خان نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہم سپریم کورٹ میں اپنا میچ جیت گئے ہیں۔لیکن ان کے کارکن ان سے سوال کررہے تھے کہ اگر آپ کو یکم نومبر کو ہی میچ ختم کرنا تھا توکے پی کے اور دوسرئے علاقوں سے آنے والےہزاروں لوگوں کو امتحان میں کیوں ڈالا گیا، جو نوجوان کھجوریں، چنے، پانی کی بوتلیں ساتھ لیکر آئے تھے وہ ایک عزم اور مقصد کیلئے آئے تھے۔ یکم نومبر سے سپریم کورٹ نے اس مقدمے پر کارروائی شروع کرکے دراصل نواز شریف کی مدد کی تھی۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی جانتے تھے کہ وہ 30 دسمبر 2016کو ریٹائر ہوجاینگے اور تب تک شاید فیصلہ نہ ہوپائے، لیکن انہوں نے اپنی ہی سربراہی ایک بینچ تشکیل دی جو 15 نومبر کو ٹوٹ گئی، پاکستان میں عدالتی فیصلوں میں ایک مدت درکار ہوتی ہے، اور ایسا ہی ہوا اور اب 20 اپریل تک تحریک انصاف کے کارکنوں میں وہ جوش اور جذبہ نہ رہا ہوگا جو دو نومبر کے ‘‘اسلام آباد لاک ڈائون’’ میچ کے وقت تھا۔
سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے پانچوں جج صاحبان متفق ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی بےگناہی ثابت نہیں کرسکے، اور نہ ہی ان کے بچوں کے دلائل ان کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں۔ دو ججوں جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے بغیر کسی اگر مگر کےلکھا ہے کہ’’وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں رہے، آئین کی رو سے وہ اب قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے لہذاانھیں وزیراعظم کے عہدئے سے ہٹا کر نااہل قرار دے دیا جائے‘‘، جبکہ تین ججوں نے کہا کہ ابھی ہم نے نا اہلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک کمیشن بنایا جائے، اور 60 دنوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔ اور پھر مٹھائی بٹ گئی کیونکہ 60 دن تو کیا 600 دنوں میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ نواز شریف جب بھی عدالتوں میں گئے ہیں کامیاب لوٹے ہیں وہ بہت اچھے کاروباری ہیں سودا کرنا جانتے ہیں، یہ ہی وجہ تھی کہ بینظیر بھٹو نے پہلی مرتبہ ان کی حکومت کی بحالی پر کہا تھا کہ سب ’چمک‘ کا کمال ہے۔آج جب دو ججوں کی نظر وں میں نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے وزیر اعظم ہیں تو پھر اس سے اچھا عنوان کہ’’ نواز شریف کو بے عزت بری کردیا گیا‘‘ نہیں ہوسکتا ہے۔آنے والی تاریخ میں مورخ اس فیصلے کو پاکستان سپریم کورٹ کی تاریخ ایک اور بدنما سیاہ داغ کہے گا۔