اسلام آباد (جیوڈیسک) نظرثانی درخواستوں پر سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پانامہ فیصلہ میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی گئی جس پر نظر ثانی کی جائے، احتساب عدالت شواہد کی نوعیت پر اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے، ٹرائل کورٹ ضعیف شواہد کو رد کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق حقائق غیرمنتازعہ تھے، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کر دیا گیا، 6 ماہ میں ٹرائل کی ہدایت ٹرائل کورٹ کو متاثر کرنے کیلئے نہیں بلکہ جلد مکمل کرنے کیلئے ہے، نگران جج کا تقرر نئی بات نہیں، مقصد ٹرائل میں بے پرواہی کو روکنا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مریم نواز بادی النظر میں لندن فلیٹس کی بینی فیشل مالک ہیں، یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ لندن فلیٹ سے کیپٹن صفدر کا کوئی تعلق نہیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر اپنے اثاثے چھپائے، بددیانتی کیساتھ کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی دیا گیا۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس اقدام کو عمومی انداز سے نہیں دیکھا جا سکتا، کاغذات نامزدگی میں تمام اثاثے بتانا قانونی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ساڑھے 6 سال کی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ تھی، یہ تنخواہ کمپنی پر واجب الادا اور نواز شریف اس کمپنی کے ملازم تھے، نہیں مانا جا سکتا کہ اثاثوں میں غلطی حادثاتی یا غیرارادی طور پر ہوئی، متفق نہیں کہ نہ نکالی گئی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ نہیں، امیدوار کو قابل پاس نمبر دینا اچھے نتائج نہیں دیتا، یہ چیز لوگوں اور سسٹم کو مزید بدعنوان کرتی ہے۔
نااہلی کے معاملے کا انتہائی محتاط ہو کر جائزہ لیا، امیدوار نے عوام کی قسمت کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کا شائبہ تک بھی نہیں ہونا چاہئے، امیدوار یا منتخب رکن کو اس معاملے پر رعایت دینا سیاست میں تباہی ہو گی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ تباہی پہلے ہی انتہاء کو پہنچ چکی جسے روکنے کیلئے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدے پر بیٹھے شخص کے حواری اہم عہدوں پر فائز ہیں، نیب، آئی بی، سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک اعلیٰ شخصیت کے زیراثر ہیں، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں بھی اعلیٰ شخصیت کا اثر و رسوخ ہے، عدالت نہیں چاہے گی کہ معاملہ کسی کے حواریوں کے پاس جائے۔
جسٹس اعجاز افضل نے فیصلے میں یہ شعر بھی لکھا ہے کہ