میاں نواز شریف پہلیاں ہی سناتے رہتے ہیں کہ بوجھو تو جانیں ان کے اس بیان پرکہ میرا مقابلہ کسی عمران زرداری سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے میڈیا پر عجیب و غریب بحث چھڑ گئی ہے ٹی وی چینلز پر اینکر حضرات اب مزے لے لے کر اس پربحث و مباحثہ کر رہے ہیں بلاول نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر میاں صاحب کا مقابلہ بقول ان کے خلائی مخلوق سے ہے تو وہ خلاء میں جائیں اور اس کا مقابلہ کریں ویسے بھی انتخابات سے قبل ایسی راگنی چھیڑ ڈالنا کوئی مناسب عمل نہیں وہ جتنا بھی چھپائیںان کی نظر میںتو واضح ہے کہ ان کے مطابق افواج پاکستان (جن کی ان گنت قربانیوں کی مثالیں پوری دنیا میں نہیںملتیں )عدلیہ پر دبائو ڈال کر ان کے خلاف فیصلے کرو ارہی ہیں یہ ایسا الزام ہے کہ جس کی وجہ سے افواج کی سخت بدنامی ہوتی ہے اور بیرون ملک بھی خوا مخوہ بھد اڑتی رہتی ہے ہماری آئی ایس آئی تو دنیا کی مانی ہوئی ایجنسی ہے۔
حتیٰ کہ امریکن سی آئی اے ،بھارتی را، کے جی بی بھی اس کے “کارناموں کے گن گاتی “رہتی ہیں انہی دنوں اصغر خان کیس بھی سپریم کورٹ میں کھل چکا ہے جس میںخود سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے تسلیم کیا ہے کہ میں نے حکماً بھاری رقوم اسلامی جمہوری اتحاد کے راہنمائوں میں تقسیم کروائی تھیںاور اعلیٰ عدلیہ نے مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظر ثانی کی درخواستیں اس لیے رد کردی ہیں کہ ان کی منظوری سے سارا مقدمہ ہی الٹ جاتا اور ان کے خلاف سابقہ فیصلہ بھی کالعدم قرار پا جاتا اورعدلیہ نے یہ بھی طے کیا کہ اب اس مقدمہ کو ملتوی نہیں کیا جائے گا ۔پرانے عدالتی فیصلہ نے جن کو ملزم ٹھہرایا تھا انہیں اب تک عملاً سزا کیوں نہیں دی جا سکی ؟اگر عدلیہ اس مقدمہ پر مکمل غور و غوض کے بعد قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی ارجنٹ فیصلہ فرما ڈالتی ہے تو ملک کا سیاسی نقشہ ہی یکسر تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔میاں نواز شریف اور ان کے اس دور کے بیشتر ساتھی رقوم حاصل کرنے کے مجرم ڈکلئیرہو گئے تو انہیں وصول کردہ وہ بھاری رقوم بھی واپس کرنا ہوں گی اور سزائیں کاٹنے کے لیے جیل یاترا بھی ہو سکتی ہے تاہم اس کا امکان ففٹی ففٹی لگتا ہے۔
اگر ہمارے دونوں افواج کے سابق ذمہ داران ہی مجرم قرار پاگئے تو سویلین افراد جنہوں نے ان کی وساطت سے بھاری رقوم وصول کی تھیں اور اس دور میں ان رقوم سے انتخابات جیتے تھے تو وہ لازماً جیلوں میں پہنچ جائیں گے قوی امید لگتی ہے کہ موجودہ دور کے عدلیہ کے روشن کردار اور ان کے دلیرانہ فیصلوں ( جو کہ آئین اور قانون سے بالکل مطابقت رکھتے ہیں ) کی وجہ سے اصغر خان کیس کا بھی(گو ان کی وفات کے بعد ہی سہی ) فیصلہ تاریخی قرار پاجائے گااور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دور میں رقوم وصول کرنے والے بھی “مجرم اعلیٰ”ہونے کی بناء پر سیاست سے ساری عمر کے لیے نااہل قرار پاجائیں رہی خدائی مخلوق اور خلائی مخلوق والی بات تو وہ کون سادور تھا ؟جب کہ فضائی مخلوق انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوئی 2013 کے انتخابات میں تو رزلٹ بناتے وقت امیدواروں تک کو بھی ریٹرننگ افسروں کے کمروں میں جانے کی اجازت نہ تھی۔راقم خود اسکا گواہ ہے کہ چشتیاں شریف کے قومی اسمبلی کے اس وقت کے حلقہ NA-190سے آزاد امیدوار تھااور جو 21000ووٹ حاصل کیے تھے۔
حکمرانوں کی طرف سے جس کو جتوانے کا آرڈر آیا تھا اسے میرے کل ووٹوں میں سے 14000نکال کر اسی مخصوص امیدوار کے کھاتے میںجمع کر ڈالے گئے تھے اور ساتھ والی سیٹ NA191سے بڑے امیدوار سے باقاعدہ پو چھا گیا کہ آپ ان دونوں سیٹوں میں سے بتادیویں کہ کس پر اپنی جیت چاہتے ہیں کہ وہ دونوں سیٹوں پر امیدوار تھے انہوں نے اپنے سابقہ جیت والے حلقہ NA191(ہارون آباد/فورٹ عباس ) کو ترجیح دی اس طرح NA-190(چشتیاں شہر )والی سیٹ سے دوسرے ن لیگی امیدوار(میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی) کی جیت کا اعلان کر ڈالا گیا۔ایسا ہی واقعہ2006کے ضمنی انتخاب میں بھی ہو اتھا کہ راقم نے اس وقت کی سیٹ NA-189 سے بہاولنگر شہر کے60پولنگ اسٹیشنوں سے 72فیصد ووٹ حاصل کیے اور شہر کی چھ یونین کونسلوں میں جیت گیا کہ اس کا باقاعدہ اعلان ٹی وی بلیٹن میں بھی ہو تارہامگر بعد ازاں رات گئے سرکاری امیدوار(ق لیگ)جو کہ اپنے آپ کو چو دھریوں کا رشتہ دار بھی بتاتا تھا اور جس نے پورے حلقہ میں کل11000ووٹ حاصل کیے تھے اسے58000کرکے اس کی جیت کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
واضح ہے کہ برسر اقتدار ٹولوں کے ساتھ ہی ہمیشہ خلائی مخلوق رہی ہے مگر اس بار اس کا امکان قطعاً نہیں لگتاقبل از مرگ واویلا اس لیے مچایا جا رہا ہے کہ اگر تو جیت گئے تو درست ہے وگرنہ قبل از وقت شور مچایا ہوا “دھاندلی دھاندلی “کا ڈھنڈورا پیٹنے کے کام مستقبل میں آتا رہے گا اور اس طرح2013کے انتخابات کے بعد اب تک کیا جانے والا دھاندلی پروپیگنڈااب دوسرے فریق کی طرف سے چالو رہ سکے گا(دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے )ویسے امید ہے کہ خلائی مخلوق نہیں بلکہ خدائی مخلوق یعنی اصل21کروڑ عوام ہی فیصلہ کریں گے وہ شایدبڑی پارٹیوں کے راہنمائوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کی آپس میں گالم گلوچ تبرے بازی دھینگا مشتی فائرنگ کرنے ایکدوسرے کے فلیکسوں و پوسٹروں پر کالے رنگ کی خفیہ سپرے کرڈالنے ایک دوسرے کی مار کٹائی ،جوتم پیزار ہونے اور جوتے پھینکنے کی وجہ سے شاید ان میں سے کسی کو ووٹ نہ پڑیں تمام جاگیردار سرمایہ دار اور سود خور نو دولتیے اور لوٹا تحریک کے موجدین پولنگ والے دن اوندھے منہ گر پڑیں اور کسی مسلکی اختلاف سے مبرا طبقاتی علاقائی اور برادری ازم جیسے ناسوروں سے پاک تحریک اللہ اکبر کی جیت کا ساماں باندھ دیں اوراللہ کی کبریائی کا ڈنکا ہر طرف بج جائے۔وما علینا الا البلاغ۔