تحریر : میر افسر امان ملکوں کی عدالتوں کو عوام کی طرف سے منتخب پارلیمنٹیں اختیارات دیتی ہے۔ عدالتیں ان اختیارت کے تحت درج مقدمات کے فیصلے کرتیں ہیں۔ کیا پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرف سے دیے گئے اختیارات کے علاوہ نواز شریف کے ساتھ کچھ اور کیا ہے؟جس پر نواز شریف سپریم کورٹ کے خلاف پاکستان کی عوام کو اُکسا رہے ہیں۔ بلکہ جب پاناما لیکس میں ان کے خاندان کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا تو نواز شریف نے خود الیکٹرونک میڈیا پر عوام سے خطاب کیا۔ تیری بار پارلیمنٹ کے اندر تقریر کرتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق اپنی دولت کے ثبوت پیش کیے اور کہا کہ جناب یہ ہیں ثبوت جن کے تحت میرے خاندان نے جائز طریقے سے پیساکمایا ہے۔ جمہوری ملکوں میں اپوزیش حکمرانوں پر تنقید کرتی ہے۔ اپنی تنقید کا جائز حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی اپوزیشن نے دبائو بڑھایا تو نواز شریف نے خود سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ وہ اس مسئلہ پر مقدمہ سن کر فیصلہ دے۔ عدالت نے واپس کہا کہ موجودہ قانون کے تحت فیصلے کرنے میں سالوں لگ سکتے ہیں ۔ اس لیے پارلیمنٹ نیا قانون( ٹی او آر) بنائے تو سپریم کورٹ فیصلہ دینے کے قابل ہو سکتی ہے۔
نواز لیگ اور اپوزشن پارلیمنٹ میں یا قانون نہ بنا سکی۔ اس پر ایک دوسرے پر الزام لگائے گئے۔ جب پارلیمنٹ قانون نہ بنا سکی تو ملک کی تین پارٹیوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں انصاف حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دائر کیں۔پہلے عدالت کے دو ججوں نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا اور تین ججوں نے کہا کہ مذید تحقیق کر لی جائے۔ پھر جے آئی کی تحقیق کے بعدعدالت کے سارے کے سارے ججوں نے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا۔ نیب کو حک جاری کیا کہ جے آئی ٹی کی تحقیق کی روشنی میں کرپشن کے مقدمات قائم کر کے ایک مقرر مدت میں فیصلہ دے۔ عوام خود دیکھ رہے ہیں کہ عدالت نے تو نواز شریف کے خود کہنے پر ہی مقدمہ سنا تھا۔ پارلیمنٹ کی طرف سے دیے گئے اختیارات کے تحت فیصلہ دیا۔اس کے باوجود نواز شریف فیصلہ ماننے کے لیے تیارنہیں اور عوام کو فوج اور عدلیہ کے خلاف اُکسا رہے ہیں۔ منتخب لوگ جب اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیںتو عدالتوں کے آزادانہ فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں۔
عدالتوں کے فیصلے نہیں مانتے اور ملک میں انتشار کی کفیت پیدا کر کے اپنے غلاف فیصلوں کو عوام کی قوت سے تبدیل کرنے کی لا حاصل کو ششیں کرتے ہیں۔نواز شریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ چوہدری نثار کی طرح پیپلز پارٹی کے چیئر مین مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس کے اپنے قانون دان یخییٰ بختیار نے مشورہ دیا تھا کہ کیس کو قانون کے مطابق لڑا جائے ۔عدالت سے نہ لڑا جائے۔ مگر بھٹو صاحب نہیں مانے اور کورٹ کے سامنے اپنے اقتدار کے نشے میں مبتلا رہے اور کچھ اس طرح کے فقرے پریس میں آتے رہے کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو ہمالہ روئے گا۔مگر عدالت نے فیصلہ سنایا ۔ اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔اور اس پر نہ ہمالہ رویا نے اور نہ ہی کچھ اور ہوا۔مریم نواز جلسوںمیں جہاں تک کہہ رہی ہے کہ نواز شریف کا فیصلہ عدالتوں نے نہیں عوام نے کرنا ہے۔
نواز شریف کا مقدمہ عوام نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ پاکستان میں نون لیگ کی حکومت ہے جلسوں میں عوام کو جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے وہ اکثر ضمنی الیکشن میں جیتی ہے۔ نواز شریف کو اس بات پر ادراک نہیں کہ عوام کی نبض پر جتنا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو سوار تھا اتنا نوازشریف نہیں۔ عدالت کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے والے نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ وہ ملک پر تیس سال سے حکمران رہے۔عوام اور حکومتی لوگوں میں ان کے اثرات ہیں۔ اس لیے لوگوں کو جلسوں میں اکٹھا کرنے کوئی ان ہونی بات نہیں۔ نواز شریف نا اہل قررار پانے کے بعد ملک میں بڑے بڑے عوامی جلسے کر رہے ہیں۔عدالت کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ان کی بیٹی ان سے بڑھ کر عدالت پر تنقید کر رہی ہے۔ اس کی پارٹی کے وزیر ان کی شہ پر فوج اور عدلیہ پر ناجائز تنقید کر رہے۔
اب تو تحریک انصاف کی منحرف گلالئی نے بھی پریس میں بیان دیا ہے کہ نون لیگ نے اس کے والد کو سینیٹ کے ٹکٹ کی پیش کش کی ہے کہ وہ فوج کے خلاف بیان دے۔ نواز شریف نے نا اہل قرار پانے کے وقت سے فوج پر بے جاہ تنقید کی کبھی کہاگیا کہ مارشل لا لگنے والا ہیمیرے خلاف سازش ہو رہی ہے۔جمہورت کو ختم کیا جارہاہے۔ فوج جمہوری نظام نہیںچلنے دے رہی۔ ملک کے کئی وزیر اعظموں کو گھر بھیج دیا گیا وغیرہ۔ ہم نے اس پر تجزیہ کرتے ہوا لکھا ، کہ نہ تو جمہوریت ختم ہوئی نہ ہی مارشل لا لگا۔ یہ آسان گہرا، نہ زمین پھٹی۔نون لیگ کے ممبران پارلیمنٹ نے نون لیگ کے نئے شاہد خاقان عباسی صاحب کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ جمہوریت چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔سینیٹ سے فارغ ہونے والے ممبران کی جگہ نئے ممبران چننے کے لیے الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا ہوا ہے۔ممبران منتخب ہو کر اپنے اپنے صوبوں کی نمائندگی کریں گے۔
فوج نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ اس سے قبل سپہ سالار نے خود سینیٹ میں پیش ہو کر سینیٹ کے ممبران سے ملکی معاملات پر بات کی۔چھ ماہ بعد پاکستان کی جرنل الیکشن بھی وقت پر ہو جائیں گے۔ہاں عدالت نے کرپشن کے الزام میں وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قررار دے دیا۔نون لیگ کی پارلیمنٹ نے اکژیت کی بنیاد پر اس ناپسندیدہ اور دنیا کا انوکھا بل پاس کر کے ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف نا اہل قرار پانے والے کو اپنی پارٹی کا صدر بنا دیا۔ جس پر عمران خان نے پارلیمنٹ پر سخت تنقید کی۔ طاقت کا نشہ کتنا ظالم ہوتا ہے کہ انہیں یہ بھی خیال نہیں آتا کہ پاکستان دشمنوں نرغے میں آیا ہوا ہے۔بھارت، امریکا اور اسرائیل دنیا کے دوسرے ملکوں کو شریک کر کے کبھی پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں،کبھی پاکستان کو دہشت گردوں کی فانس کرنے پر واچ لسٹ پر ڈانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پاکستان توڑنے والا بھارت، مذید دس ٹکڑے کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ پاکستان کاا زلی دشمن بھات کشمیر کی کنٹرول لائن پر آئے دن بے گناہ شہرویوںکو شہید کر رہا ہے۔ امریکا اور بھارت کی شہ پر کلعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربرہ فضل اللہ افغانستان سے پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔خود پاکستان کے اندر بھارتی سیکولر لابی پاکستان کے اسلامی تشخص اور دو قومی نظریہ پر نون لیگ کی حکومت کئی صفوں میں بیٹھ کر حملہ آور ہیں۔نواز شریف آگے چلے گئے ہیں کہ پاکستان کے غدار شیخ مجیب کو بھی محب وطن قرار دے چکے ہیں۔
صاحبو! نواز شریف اب تک نیپ عدالت میں اپنے خلاف الزامات کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں پیش کر سکے۔پہلے محمل سا قطری خط پیش کیا تھا جو کچھ بھی ثابت نہ کرسکا۔جے آئی ٹی نے خط لکھنے والے شہزادے کو بیان کے لیے طلب کیا تو وہ پیش نہیں ہوا۔ نہ ہی قطر میں پاکستانی سفارت خانے تک آنے کی تکلیف برداشت کی۔اس پر لوگوں نے قطری خط کو جعلی تک کہا۔ اصل میں تیس سال حکمران اور تین دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے کی وجہ سے نواز شریف میں مغل شہزادوں کی سی خصلتین پیدا ہو گئیں ہیں جو ان کو لے ڈوبے گیں۔ قانون ثبوت مانگتا ہے اور نواز شریف اپنی مقبولیت کے جنون میں بڑے بڑے جلسے کر کے عدالت پر اثر انداز ہونے کی بے سود کوشش کر رہیں۔ نون لیگ نے ملک کے سارے اداروں میں اپنے آدمی لگا کر اپنی کرپشن چھپائی۔ اب آزاد عدلیہ کی گرفت میں نواز شریف آ گئے ہیں جس سے بغیر ثبوت کے وہ نہیں نکل سکتے ۔نواز شریف کو محب وطن ذرائع کا مشورہ ہے کہ اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے ملک کو دائو پرلگانے سے باز آ جائیں۔عوام سے چھینا ہوا پیسا عوام کوواپس کریں۔ اسی میں آپ کابھلاہے۔ عدلیہ سے نہ لڑیں اور کورٹ میں ثبوت پیش کریں۔ ورنہ سزا کے لیے تیار ہوجائیں۔ ملک میں قانون توڑنے والوں کو ملک کے محافظ نپٹ سکتے ہیں۔