تحریر : انجینئر افتخار چودھری نون لیگیوں کو اللہ سمجھے کہتے پھر رہے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔بھائیو کون سا قدم کس جانب قدم۔آج وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور کہہ رہے ہیں دیکھیں جی ہمیں کرپشن میں نہیں جھوٹ بولنے پر نکالا گیا ہے۔اور یار لوگ سمجھتے تھے کہ نواز شریف سے گیم نکلی تو ہمارے ہاتھ آئے گی۔ایک ایبٹ آباد کے موروثی سیاست دان ہیں جن کے ابا حضور جنرل فضل حق کے خاص دوست تھے ان کا نام بھی لسٹ میں ڈال دیا گیا چلو خبر تو بنے گی۔میں نے ایک بار ایک کالم لکھا تھا عنوان تھا سیکو نائی آج مجھے وہ یاد آ گیا۔
موضع لسن ایبٹ آباد کا گائوں ہے یو سی لنگڑیال میں ایک دور افتادہ گائوں ہے۔اس گائوں میں ایک گھرانہ نائیوں کا بھی تھا۔حانی نیانی بیوہ جو اب دنیا میں نہیں اس کا ایک بیٹا تھا بڑی مدت بعد سیک سیک کے اللہ نے اسے بیٹا دیا تو اس نے نام ہی سیک محمد رکھ دیا۔غریبوں کی بد قسمتی یہی ہے کہ ان کے انم بھی اویسے نہیں رہتے گائوں میں اسے سیکو کے نام سے پکارا گیا۔
ایک دن ماں سے پوچھنے لگا مائے یہ درے والا چودھری بہادر مر گیا تو اس کی جگہ گائوں کا بڑا کون بنے گا اس نے کہا بیٹا اس کا بیٹا میانداد یا گلزار مائے اگر وہ بھی نہ رہے تو اس نے جواب دیا انہی کی نسل کا کوئی اور۔مائے اگر وہ بھی۔۔۔۔وہ کہہ ہی رہا تھا کہ ماں نے جواب دیا بیٹا ہم نائی ہیں اگر کوئی بڑا بنا بھی تو چودھریوں کی نسل سے ہی ہو گا تم نے اور تمہاری نسل نے بال ہی کاٹنے ہیں۔
مجھے آج جب فیصلہ ہوا کہ نواز شریف کے بعد شہباز شری وزیر اعظم ہو گا اور شہباز کی جگہ حمزہ شہباز لے گا تو سیک محمد یاد آ گیا۔ہم جمہوریت کا راگ الاپتے رہیں یہاں کوئی میانداد اور گلزار ہی آئے گا میرے اس زمانے کے سیکو اپنا اپنا کام کریں۔بال کاٹتے رہیں بغلیں مونڈھتے رہیں ان میں کوئی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔
مری کا عباسی اگر نامزد ہوا بھی ہے تو اسے بس میں سیٹ پر کرنے کے لئے بطور چادر استعمال کیا جائے گا۔عدالتیں آپ کو یہ بہترین فیصلہ تو دے گئیں ہیں اب آپ کا کام ہے کہ ان چودھریوں کو اٹھا کر پھینکیں اور وہ ایسے ہی ہو سکتا ہے کہ سارے سیکو اکٹھے ہو جائیں اور اپنے آپ کو ثابت کریں کہ ہم اقتتدار کے اہل ہیں ہم الیکشن کو صیح جمہوری روح لڑیں گے اور ایک غریب کا بچہ آگے آئے گا۔
خانی نیانیاں اگر بچوں کو یہ سبق دیں کہ تم سکول جائو محنت کرو مقابلہ کرو لوگوں کو جگائو تو کوئی وجہ نہیں کہ سیکو نائی حکمران بن جائیں ۔میری بات لکھ لیں جب تک موروثیت ہے یہ قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔اب جو بنے بنائے سیکو ہیں ان کی عقل پر سوائے ماتم کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔جائو سارے سیکوئوں نیچے لیٹ جائے تخت رائے ونڈ کے چودھریوں کے۔ اور انہیں یہ احساس دلا دو کہ بائیس کروڑ لوگوں میں سے کوئی بہادر دلیر نہیں ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم لیڈروں کے آگے لیٹ جاتے ہیں ہم ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے۔یہ ہے تو بڑا مشکل کام مگر یہ مشکل کام کیا کسی کھوتے نے آ کر کرنا ہے کام ہی تو ہے ناں مشکل ہے تو کیا۔پاکستان کے لوگوں میں جب یہ سوچ جاگ اٹھی اس دن پاکستان جاگے گا۔خدا کی قسم ہر پارٹی میں میں یہ سیکو نائی موجود ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم نائی ہیں اور نائی رہیں گے۔
بزدل چوہے جو کسی غلط بات پر ہاتھ ایسے اٹھا دیتے ہیں جیسے روبوٹ ہوں۔پاکستان کی تقدیر عدالت عالیہ کے ہزار فیصلوں کے بعد بھی نہیں بدلے گی جب تک یہ چاپلوس لوگ ہر وقت اپنے لیڈر کو احساس دلاتے ہوں کہ آپ ہی سچ ہیں۔نواز شریف کا کیا بگڑے گا۔جب تک اس سارے چور ٹبر اور اس کی سوچ کے ان سیکو نائیوں کا تدارک نہ ہوا کچھ نہیں بگڑا ۔ککہ دے ناں شاہد خاقان عباسی کیوں جی میں بس کی سیٹ کی چادر کیوں بنوں؟عقل بھی ہے تعلیم بھی ہے قد بھی ہے کاٹھ بھی گھر بھی ہے اور گھرانہ بھی خاندان بھی تگڑا اور قبیلہ بھی ۔کس چیز نے انہیں کٹھ پتلی بننے پر مجبور کیا ہے ؟انہیں صاف انکار کرنا چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ کوئی ٹوڈی سنٹرل پنجاب سے لے آئیں کوئی بٹ کوئی خواجہ کوئی میر لیکن کریں کیا یہ سب سیکو نائی کے پیرو کار ہیں۔سارے سیکو نائی مردہ باد