لاہور (جیوڈیسک) ہائیکورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت 16 ارکان اسمبلی کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر عبوری پابندی لگاتے ہوئے بنچ پر اٹھائے گئے اعتراضات کو بھی مسترد کر دیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نواز شریف اور مریم نواز سمیت 16 اراکین اسمبلی کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کی 27 متفرق درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالت نے معاملہ پیمرا کو بھجواتے ہوئے درخواستوں پر 15 دن میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔
ہائیکورٹ کے فل بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس دوران نواز شریف سمیت دیگر افراد کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر نہ کی جائیں۔ عدالت نے پیمرا اور تمام متعلق فریقوں کو حکم دیا کہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ 15 دن میں توہین عدالت پر مبنی کوئی مواد ٹی وی چینلز پر نشرنہ ہو، عدلیہ مخالف توہین آمیز مواد کی خود سخت مانیٹرنگ کریں گے۔ ہائیکورٹ نے عدالتی دائرہ اختیار کیخلاف نوازشریف کی درخواست بھی مسترد کردی۔
قبل ازیں آج سماعت شروع ہونے سے قبل نواز شریف نے تحریری طور پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی بنچ میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے تاہم عدالت نے انہیں مسترد کردیا۔ سابق وزیراعظم نے بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے بنچ سے علیحدگی کی استدعا کی۔
نواز شریف نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مجھے سنے بغیر اپنے حکم نامے میں متنازعہ ریمارکس لکھے، فاضل جج کے ریمارکس سے میرے دل میں خوف پیدا ہوا، بنچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی موجودگی سے مجھے انصاف کا حصول ممکن نظر نہیں آتا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی خود کو بنچ سے علیحدہ کریں۔
واضح رہے کہ نوازشریف، مریم نواز، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر رکوانے کے لیے دو درجن سے زائد درخواستیں لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھیں جنہیں یکجا کرکے سماعت کے لیے فل بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ مختلف وجوہات کی بنا پر بنچ تین بار تحلیل ہوا جس کے بعد اب چوتھے بنچ نے سماعت کی ہے۔