اسلام آباد (جیوڈیسک) شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز کی سماعت، نیب کے گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے گئے۔ عدالت نے نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 28 نومبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دے دیا جبکہ سابق وزیراعظم اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی نئی درخواستوں پر نیب سے جواب طلب کر لیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف دائر ایون فیلڈ فلیٹس ریفرنس کی سماعت شروع کی تو نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث وقت پر نہ پہنچ سکے۔ اس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ دعا کریں خواجہ حارث جلدی آجائیں۔ 15 منٹ انتظار کے بعد خواجہ حارث کے کمرہ عدالت پہنچنے پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب کے گواہ محمد رشید کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
گواہ پر جرح کرتے ہوئے خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا پہلے کبھی نیب نے ان کی کمپنی کو کوئی خط لکھا تھا۔ محمد رشید نے بتایا کہ انھیں 5 ستمبر سے پہلے کوئی خط نہیں لکھا گیا۔ اس پر جج محمد بشیر نے گواہ کو تنبیہ کی کہ سیدھا جواب دیں، اگر جھوٹ بولیں گے تو 10 سوال اور ہوں گے۔ گواہ نے بتایا کہ وہ 6 ستمبر 2017 سے قبل کبھی بھی نیب کے سامنے پیش نہیں ہوا، پیش کردہ دستاویز سے ذاتی کوئی تعلق نہیں۔
گواہ پر جرح کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر میں گرما گرمی بھی ہوئی۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ وکیل صفائی گواہ کو کنفیوز کررہے ہیں۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے سادہ سوال کیا ہے کہ فوٹو کاپیوں پر کیا ہونا ہے؟، نیب پراسیکیوٹر بے جا مداخلت کرتے ہیں اس پر ہمیں اعتراض ہے۔
جب تک گواہ نہ بولے یہ کیوں لقمہ دیتے ہیں۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ وہ لقمہ دینے کے لئے ہی کھڑے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ خواجہ صاحب کچھ بھی پوچھتے رہیں اور ہم خاموش رہیں؟۔ اس پر جج محمد بشیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اگر فریقین کے وکلاء نے عدالت میں لڑائی ہی کرنی ہے تو پھر وہ اٹھ کر چیمبر میں چلے جاتے ہیں۔
دوران سماعت ایک موقع پر ایس ایس پی جمیل ہاشمی کا موبائل فون بول پڑا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار بھی کیا تاہم عدالتی عملے نے پولیس افسر کا موبائل ضبط نہیں کیا۔ دوسرے گوہ مظہر رضا بنگش نے جرح کے دوران بتایا کہ التوفیق کیس کے فیصلے میں نواز شریف ملزم نہیں، تفتیشی افسر کے مطابق مذکورہ کمپنی نے نواز شریف کو کوئی سروس نہیں دی۔ مندرجات پر مزید بات نہیں کرسکتا کیونکہ یہ عدالتی حکم ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے بھی گواہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد بیان کے مندرجات پر بات نہیں کی جاسکتی ہے۔
نوازشریف کے دوسرے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ نیب پراسیکیوٹر کمرہ عدالت میں گواہ کے کان میں کچھ کہہ رہے ہیں۔ جرح کے دوران گواہ نے بتایا کہ 20 سال پرانی بات یاد نہیں کہ انھیں ہدایات تحریری طور پر دی گئی تھیں یا زبانی۔ یہ دستاویزات میں 19 سال کے بعد دیکھ رہا ہوں۔
اس لئے ان کے پاس 9 افراد سے متعلق کوئی دستاویزات موجود نہیں۔ دوسرے گواہ پر خواجہ حارث کی جرح مکمل ہونے کے بعد جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو عدالت سے جانے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کی حاضری لگ گئی ہے، وہ چاہئیں تو جاسکتے ہیں۔ اس پر نوازشریف اور مریم نواز سماعت چھوڑ کر احتساب عدالت سے پنجاب ہائوس چلے گئے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت میں پہنچے تو لیگی کارکنوں نے ان کا اسقبال کیا۔ آصف کرمانی، مریم اورنگیزیب سمیت لیگی رہنما بھی ہمراہ تھے۔
عدالت نے آج استغاثہ کے مزید 4 گواہان کو طلب کیا گیا جن میں ملک طیب، شہباز، مظہر، بنگش راشد شامل تھے۔ جوڈیشل کمپلیکس اور اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔
واضح رہے اب تک سابق وزیر اعظم نواز شریف 6 مرتبہ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 8، 8 مرتبہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ حسن اور حسین نواز ایک مرتبہ بھی عدالت نہیں آئے جس پر انہیں اشتہاری ملزم قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت ملزمان کے دائمی وارنٹ جاری کرنے کا بھی حکم دے گی۔
نواز شریف پر ان کے نمائندے ظافر خان کی موجودگی میں 19 اکتوبر کو 2 ریفرنسز جبکہ 20 اکتوبر کو ایک ریفرنس میں فرد جرم عائد کی گئی۔
خیال رہے عدالت نے گزشتہ سماعت پر کمشنر ان لینڈ ریونیو جہانگیر احمد اور ایس ای سی پی کی افسر سدرہ منصور کے بیانات ریکارڈ کئے جبکہ 2 مزید گواہان کو طلبی کے سمن جاری کئے۔ عدالت نے نواز شریف کو ایک ہفتہ جبکہ مریم نواز کو ایک ماہ کے لئے حاضری سے استثنیٰ دے رکھا ہے۔