اسلام آباد (جیوڈیسک) ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔
عدالت نے ابتدا میں انتہائی مختصر فیصلہ سنایا اور سابق وزیراعظم کی درخواست کو مسترد کردیا تاہم بعد ازاں 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ نوازشریف کو علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں، یہ کیس غیر معمولی حالات کا نہیں بنتا، نوازشریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے پاس بیمار قیدی کو اسپتال منتقل کرنےکا اختیار ہے، نوازشریف کے کیس میں قانون کے تحت جب ضرورت پڑی اسپتال منتقل کیاگیا، عدالتی نظیریں موجود ہیں قیدی کا جیل یا اسپتال میں علاج ہو رہا ہو تو ضمانت کا حق دار نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ نواز شریف نے جب بھی خرابی صحت کی شکایت کی انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، ان کو پاکستان میں دستیاب بہترین طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں، پیش کردہ حقائق کے مطابق نوازشریف کا کیس انتہائی غیر معمولی نوعیت کا نہیں۔
عدالتی فیصلے میں شرجیل میمن سمیت مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات بھی پیش کیے گئے۔
’رپورٹس تجویز نہیں کرتیں کہ قید درخواستگزار کی زندگی کیلئے نقصان دہ ہے‘ فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو دل، گردوں، بلند فشار خون اور ذیابطیس کا مسئلہ ہے، ڈاکٹرز کی رپورٹ تجویز نہیں کرتیں کہ درخواست گزار کی قید ان کی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے، کسی بھی بیماری سےجان کو خطرہ ہوسکتا ہے تاہم بہتر علاج ہو تو ایسا نہیں ہوگا۔
فیصلے میں مزید کہا گیاہے کہ میڈیکل بورڈ کے مطابق درخواست گزار کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں لہٰذا کیس کو غیر معمولی حالات اور شدید مشکلات سے دوچار تصور نہیں کیا جاسکتا، اس بنیاد پر ضمانت پر رہائی نہیں دی جاسکتی اور بیماری کے باعث سزا معطلی کی درخواست میں مواد نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزار کی صحت 15 جنوری کوخراب ہوئی جس کے بعد یہ درخواست دائر کی گئی، درخواست میرٹ پر نہیں ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے 20 فروری کو نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی 7 سال قید کی سزا کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کو سنائے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے نیب کو شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
8 ستمبر 2017 کو نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے۔
احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید اور فیلگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کیا۔