تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم پچھلے دِنوں جس وقت ہمارے مُلک کے ہر دلعزیز بزنس مائنڈ وزیراعظم عزت مآب محترم المقام جناب محمد نواز شریف صاحب اپنے دستِ مبار ک سے کراچی میں M-9 کراچی حیدرآباد موٹروے کے 75 کلومیٹر کا پہلا سیکشن مکمل ہو نے پر افتتاح کرتے تھے تو اُن ہی لمحات میں ایک یہ خبر آئی کہ سیدوالا کے علاقے میں دریا ئے راوی میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار ہونے کی وجہ سے گشتی ڈوبنے سے 100 سے زئد افراد لاپتہ ہو گئے ہیں کچھ کوتو بچا لیا گیا ہے اور مزید کی تلاش جاری ہے یقینا یہ خبر نہ صرف سیدوالا کے لوگوں کے لئے باعثِ دُکھ اور غم کی ہے بلکہ ساری پاکستانی قوم کے لئے بڑی دُکھ اور افسوس کی خبر ہے اللہ اِس سانحے میں شہید ہونے والوں کی مغفرت کرے اور مرحومین کے لواحقین کو صبرجمیل پر اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین۔
(مگر یہاں راقم الحرف پہلے بات اُس سروے سے متعلق کرے گا جو اگلی سطور میں پیش کیا جائے گا پھر دریا ئے راوی پر پیش آئے سانحہ کے بارے میں بھی ا پنا اظہارِ خیال پیش کرے گا ) کہنے کا مقصد3فروری بروز جمعہ کو جب وزیراعظم نوازشریف M-9کی افتتاحی تقریب سے اپنا خطاب جاری رکھے ہوئے تھے توعین اُسی وقت دوسری خبر یہ بھی آئی کہ ستمبر2016تااکتوبر2016کے دوران انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اورپینین ریسرچ اور انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کیا گیا ایک سروے سامنے آیا ہے جس میں والہانہ انداز سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ”وزیراعظم نوازشریف پاکستان میں مقبول ترین رہنما ،وفاقی اور صوبا ئی حکومتوں کے مقا بلے میں صرف پنجا ب حکومت کارکردگی میں سرفہرست،عمران خان المعروف مسٹر سونا می و دھرنا لیڈردوسرے نمبر پر پسندیدہ ،ساتھ ہی سروے میں بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ 97فیصدپاکستانی پاک فوج پر اندھااعتبارکرتے ہیں(جبکہ راقم الحرف کے نزدیک سروے میں فوج کے حوالے سے ڈنڈی ماری گئی ہے اور کنجوسی کابھی مظاہرہ کیاگیا جِسے مسترکرتے ہوئے راقم السطور کا قوی خیال یہ ہے کہ اِس سمیت 100فیصد پاکستانی اپنی افواج پر اندھااعتماد اور اعتبار کرتے ہیں اہلِ سروے اِس حوالے سے اپنی اصلا ح ضرور کرلیں) جبکہ اِسی سروے میں جیسے ڈنکے کی چوٹ اورحیرت انگیز طور پر یہ انکشاف بھی کیا گیاہے کہ با نی متحدہ پہلے اور دوسرے نمبر پر ماضی کے مسٹرٹین پرسنڈ سے بے لگام ترقی کرنے والے زرداری جبکہ طاہرالقادری تیسرے نمبر پر نا پسندیدہ قرار پائے ہیں۔
تاہم تفصیلات کے مطابق آئی پی اُو آرسروے میں 4 ہزار 978 افراد سے مختلف نوعیت کے سوالات کئے گئے اِن سوالات ملنے والے جوابات پر مشتمل اِس سروے میں مختلف حوالو ں سے کئی ایسے انکشافات سامنے آئے ہیں جنہیں عقل ما ننے اور نہ ما ننے کی پوزیشن میں ہے۔ہاں البتہ ..!! اِس تذذب میں مبتلا عقل اِس نتیجے پر ضرور پہنچی ہے کہ یہ سروے اِس مثل کے مصداق ہے کہ ” اندھا با نٹے ریوڑیا ں ہر پھرکے اپنوں ہی کو دے“۔سروے میں جتانے والے انداز سے یہ بتانے اور عوام کے دماغ میں ٹھونسے اور دل میں بیٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سیاسی رہنماو ¿ں کی پسندیدگی اور ناپسندگی کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف 63 فیصد پسندیدگی کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ عمران خان 39فیصدکے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے با نی متحدہ کے لئے ناپسندیدگی کی شرح83فیصددیگر سیاسی شخصیات میں آصف علی زرداری 80فیصد اور طاہر القادری 79فیصدرہے شایدفیصدکاتناب اِس سے زیادہ ہو مگرسروے کرنے والوں نے اِس میں بھی مصالحت سے کام لیا اور شرح نا پسندیدگی کی صحیح فیصد اور درست تناسب پیش کرنے میں بھی بہت ہلکا ہاتھ رکھا ہے۔
اگر سروے انتظامیہ اپنے سروے کے ساتھ انصاف کرتی تو ممکن تھا کہ پسندیدگی اور نا پسندیدگی کی شرح کئی گنا زائداندازسے سامنے آتی بہر حال،سروے میں وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے جو بات پیش کی گئی ہے اور جو نقطہ سامنے آیا ہے وہ یوں ہے کہ ”وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے 64فیصدافراد نے پاکستان مسلم لیگ نوازکی حکومت کی کارکردگی ” اچھی “ اور ” بہت اچھی“ قراردی یقینا اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ن لیگ کی سابقہ دو حکومتوں کے مقابلے میں تیسری حکومت کی نہ صرف وفاق بلکہ چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی ترقیاتی منصوبوں اور دیگر حوالوں سے کارکردگی بہت سے حوالوں سے بہت بہت اچھی ہے آج یہی وجہ ہے کہ اگلے انتخابات میں ن لیگ کو چوتھی مرتبہ بھی حکومت بنا نے اور اقتدار میں آنے کے سو فیصد امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی نہ صرف وفاق بلکہ چاروں صوبا ئی حکومتوں بالخصوص صوبہ سندھ تک میں بھی صفر سے بھی گئی گزری ہے سمجھ نہیں آرہاہے کہ عوام کو روٹی ، کپڑااور مکان کا نعرہ لگا نے والی پی پی پی مُلکی اور عوامی ترقیاتی منصوبوں کے حوالوں سے قومی خزانے سے ملنے والے فنڈز اور رقوم کا کیا کررہی ہے؟؟ کراچی اور سندھ سمیت کہیں بھی ایک پائی کا بھی ترقیاتی منصوبہ ہوتا ہوا دکھا ئی نہیں دے رہاہے سمجھ نہیںآرہاہے کہ پی پی پی کو کراچی اور سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے لئے ملنے والے فنڈز کِدھر جارہے ہیں؟؟ شہری علاقوںکو متحدہ اور پی پی پی کی قضبوں کی جنگ میں شہری گندگی اور غلاظت کے انبار میں گلی گلی شاہراہ شاہراہ گٹرکے ابلتے بدبودار پانی پر بھن بھناتے مچھروں اور وبا ئی امراض کے سائے میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں اور اِس پر دونوں کا یہ دعویٰ ہے کہ دونوں ہی شہرکراچی کے بے کس اور مجبورحال شہریوں کی خدمت میںدن رات ایک کئے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا ہرگزنہیں ہے دونوں کو شہر کے مکینوں کے لئے ایک ڈھلے کا بھی کام نہ کرکے بس اپنی اپنی سیاست چمکانے اور اگلے انتخابات سے قبل شہرکراچی پر اپنا حق جتانے اور اِس پر اپنا سیاسی اور دھونس و دھاندلی کا قبضہ جمانے کی لگی پڑی ہے یہ بات سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں سے سیاست کرنے والے سیاسی بازی گروں کے لئے نوشتہ دار ہے۔
Imran Khan
تاہم سروے کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کے کام کرنے کے اندازکے بارے میں 16فیصدافراد نے تو اِسے ” بہت اچھا“ اور 51فیصدنے صرف ” اچھا“ قراردیاجبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ”بہت اچھا“ 51اور صرف ” اچھا“16فیصدفراد نے قراردیاہوتا۔ بہرکیف،سروے کے مطابق مُلک کی سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے 57فیصدافراد کا کہناہے کہ سیاسی صورتِ حال مستحکم ہے جبکہ صوبا ئی حکومتوں کی کارکردگی کے لحاظ سے پنجاب 79فیصدکے ساتھ سب سے آگے یعنی کہ پہلے نمبر پر، خیبرپختونخواہ 72فیصد کے ساتھ دوسرے پر ، سندھ 54فیصدکے ساتھ تیسرے نمبر پردہت تیری کی اور بیچارہ مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بننے والاہمارا بلوچستان48 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبرپر رہا ۔ یہاں سب سے زیادہ افسوس ناک امریہ ہے کہ وفاق میں اپوزیشن کی بڑی جماعت کا کردار اداکرنے والی پا کستان پیپلز پارٹی جس کا اپنے صوبے سندھ میں بھی ہولڈ ہے اِس پارٹی نے اپنے صوبے اور کراچی جیسے مُلک کو سب سے زیادہ کما کر دینے اور ٹیکس اداکرنے والے شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی کچھ نہیں کیا ہے اِس کی اپنے صوبے میں کارکردگی صرف54فیصد ہونا اِس پر بہت بڑا اور سیاہ ترین سوالیہ نشان ہے۔
اگرچہ ابھی اگلے انتخابات میں پھر بھی بڑاوقت پڑا ہے کہ آج اگر با لخصوص سند ھ اور شہرِ کراچی میں پی پی پی اور متحدہ اپنے سیاسی اور ذاتی اختلافات اور کراچی شہر پر اپنا اپنازبردستی کا قبضہ جمانے کے خواب سے نکل جا ئیں اورخالصتاََ سندھ کے کراچی جیسے شہروں کی تعمیروترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیںاوربا لخصوص پی پی پی میئرکراچی کو اِن کے مطابق سابقہ غضب کئے گئے اختیارات بحال کردے اور اِنہیں پرانے ہی تقویض کردہ اختیارات کے دائرے کارمیں رہتے ہوئے اِن کی مرضی اور منشا ءکے مطابق اِنہیں کام کرنے دے تو عین ممکن ہے کہ مُلک کو سب سے زیادہ کماکر ٹیکس دینے والے شہرکراچی کی خستہ حالی درست ہوجا ئے اور اِس کی کھنڈربنے گلی کوچے بہترہوجا ئیں اورشہر قائد کی شاہراہوں اور بازاروں سے گٹرکے گندے بدبودارسیوریج کے پانی اور گندگی و غلاظت کے تعفن اُٹھتے اُونچے اُونچے انبار کا بھی خاتمہ ہوجائے پھراِس طرح دنیاکے بارہویں انٹرنیشنل شہرکراچی کی خراب ہوتی حالت زاربھی ٹھیک ہوجائے گی جو اَب تک کراچی کی دوبڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور متحدہ کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے خراب سے خراب تر ہو چکی ہے۔
جبکہ سروے کی مطابق یہاں یہ امریقینا قابلِ ذکر ہے کہ جب پا ناما پیپررلیکس کے حوالے سے لوگوںسے پوچھاگیاتو 26فیصدافراد نے ” انتہائی دلچسپی“38فیصد نے ’کسی حد تک دلچسپی“اور صرف 28فیصد افراد کا یہ جواب تھاکہ ” انہیں اِس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے“جب لوگوںسے یہ پوچھاگیاکہ آئندہ برس کے دوران اِن کے معاشی حالات بہتر ہوں گے ؟؟بدتر ہوجا ئیں گے؟؟ یا ایسے ہی رہیں گے؟؟ تواِن پوچھے گئے سوالات کے جوابات بالتریب یوں آئے کہ ”40فیصدافراد نے بہتر ہونے،32فیصد افراد نے بدترین ہونے جبکہ 21فیصدافرا د نے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیا جبکہ اصل بات یہ ہے کہ سروے میں معاشی حالات کے حوالے سے جو باتیں کی گئی ہیں اِن میں بھی بہت کچھ چھپایا گیاہے حقا ئق کچھ اور ہیں اور بتایاکچھ اور گیا ہے۔ تاہم سروے میں تحفظ کے حوالے سے74فیصدافراد کا کہناتھاکہ وہ پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر تحفظ محسوس کرتے ہیں جس کے مطابق پنجاب میں 79فیصد سندھ میں یہ تناسب 66فیصد،بلوچستان میں 59فیصداور خیبرپختونخواہ میں یہ تناسب 73فیصدسا منے آیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے آج مجموعی طور پر تحفظ کے حوالے سے مُلک بھر میں یقینی طور پر 85سے 90فیصدافراد پہلے کی نسبت کافی حد تک خود کو زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں۔
ہاں البتہ ..!! سندھ کے شہر کراچی اور بلوچستان بھر میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں پھر تیزہوتی جارہی ہیںاِس جانب مزید سخت اقدامات کرنے کی اشدضرورت ہے جس کے بعد حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور نتائج بھی اچھے نکلے گیں۔ البتہ سروسے میں جن اداروں کی ریٹنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں اُن میں جس ادارے سے متعلق سب سے زیادہ حوصلہ افزاجواب سامنے آیا ہے وہ پاک فوج کا ادارہ ہے جس پر عوامی اعتماد97فیصد سب زیادہ رہا (پا ک فوج سے متعلق راقم الحرف اُوپری سطور میں اپنا خیال پہلے ہی کر چکا ہے اِس تناسب کو اُس طرح پڑھا اور دیکھا جائے)72فیصدنے عدالتوں پر،44فیصدنے پولیس اور49نے میڈیاپراپنے اعتماد کا اظہار کیا یہاں راقم السطور کا خام و قوی خیال یہ ہے کہ پاک فوج کے بعد اگر قوم کو کسی ادارے پر اعتبار اور اعتماد ہے تو وہ بس ایک میڈیا ہے جو عوام کے دل کی آواز اور اُ س کے خون کے ہر خلیئے میں شامل ہوچکاہے یعنی آ ج اگر یہ کہاجائے کہ قوم کا اعتماد اور اعتبار فوج کے بعد اپنے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہے جو عوام کی اصل نمائندگی کرتاہے میڈیاتو اپنا حق عوام کے اُس منتخب نمائندے سے بھی زیادہ کرتا ہے عوام جِسے اپنا ووٹ دے کر اپنے مسائل حل کرانے کے لئے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں مگر وہ بھی ایک وقت میں مصالحتوں کا شکار ہوکر عوامی مسائل حل کرناتو دورکی بات ہے اُن کی نشاندہی سے بھی کنی کٹاتاہے مگر ایک میڈیاہی تو ہے جو ہر موقع پر حالات چاہئے جیسے بھی ہوں وہ عوامی مسائل کو اجاگرکرنے میں ہمہ وقت پیش پیش رہتاہے اللہ ہماری پاک فوج اور ہمارے میڈیا کو سداسلامت اور حق وسچ کا علم بلند رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
بہرحال ،سروے کی روسے یہ ساری باتیں اپنی جگہہ سچی تھیں یا جھوٹی تھیں جیسا راقم الحرف نے سمجھا اور دیکھا ویسا بیان کردیا مگر اَب جو میں ایک بات کہناچاہتاہوں وہ کچھ یہ ہے کہ آج جب اگلے عام انتخابات 2018کو آنے میں ایک سال اور چندماہ باقی رہ گئے ہیں تو ہمارے وزیراعظم نوازشریف مُلک بھر میں بالخصو ص اُن مقامات اور اُن وفاقی اور صوبائی حلقوںمیںجہاں اِن کے ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے یہاںجہاں سے اِنہیںیا جن کے اُمیدوار کو جتنے کے امکانات ہیں یا جہاں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مخالفین اُمیدواروں کے حلقوںمیں سڑکیں بنواکر اور ترقیاتی کاموں اور مہنگے پروجیکٹس کے سلسلے شروع کرواکراپنے مخالفین کو الیکشن میں ہرادیںگے تو آج اُن حلقوںاور علاقوں اور شہروں اور گاو ¿ںاور قصبوںمیںہر قسم کے ترقیاتی منصوبے اور شہریوں کو بنیادی سہولیات زندگی میسر کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جاہے ہیں اور سندھ میںM-9, M-8 اور M-12جیسے کئی کئی کلومیٹرز پر مشتمل موٹروے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں کچھ شروع ہوکر تکمیل کو پہنچ چکے ہیں تو کئی ایسے بھی ہیں جو الیکشن کے سال میں مکمل ہوں گے اور کچھ بعد تک جاری رہے ہیں۔
مگر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم نوازشریف کو سیدوالا کے علاقے میں دریائے راوی پر پل بنانے کا خیال ہی نہیںآیا ہے جہاں پچھلے ہی دِنوں مسافر کشتی ڈوب گئی جس کے نتیجے میں100سے زائد مسافر لاپتہ ہوگئے وقعہ کے بعد آنے والی خبروںکے مطابق 50سے زائد افراد کو بحفاظت نکال لیا گیااور باقی کے لئے سرچ آپریشن اگلے روزتک چلتارہا جبکہ اِسی مقام پر 20سال پہلے بھی گنجائش سے زیادہ مسافرسوار ہونے کی وجہ سے کشتی ڈوبنے سے 200افرادجان بحق ہوگئے تھے اور آج اُس وقت پھر اِسی جگہہ پر ایک اور کشتی ڈوبنے کا حادثہ پیش آیا جب وزیراعظم نوازشریف کراچی میں کراچی حیدرآبا دM-9ؒٓ کا افتتاح کرنے سے قبل اپنے خطاب میں یہ کہہ رہے تھے کہ ” چارٹرطیاروں ، ہیلی کاپٹروں پر گھومنے والے نیچے اُترکر دیکھیں سڑکوں کی کیا اہمیت ہے ، ہمارا ایجنڈاترقی ہے، سڑکیں ہونگی تو اسپتال ، تعلیمی ادارے بنیں گے، غریبوں کی زندگیاں بدلے گی اور لوگ قریب آئیں گے ، قوم کی تعمیر کھیل نہیں لو گ نیا پاکستان بنتا دیکھ رہے ہیں،مخالفین ترقی میں ہم سے مقا بلہ کریں ،منزل تک پہنچنے کے لئے پہلے راستوں کو آسان بنانا ہوگا “ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اور بہت سے ایسے دلفریب اور دلکش جملے اداکئے کہ دل باغ باغ ہوگیامگر جب راقم الحرف کے کانوں سے سیدوالا پر دریائے راوی پر کشتی ڈوبنے کے سانحہ میں کئی افراد کی ہلاکت کی خبر ٹکرائی تو پھر وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکاکہ آخر وزیراعظم نواز شریف نے سیدوالا کے علاقے دریا ئے راوی پر پل کیوں نہیں بنایا؟؟ اور اِس جانب کیوں توجہ نہ دی ؟؟ کہیں یہ تو نہیں کہ اِس علاقے میں اِن کے ووٹر نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ اِس علاقے والوں کو نظر انداز کررہے ہیں جب اِس علاقے کے ووٹر اِنہیں ووٹ دے کر کامیاب کرتے تو یہ بھی اِن کا کام کرتے اور یہاں پر بھی پل ضرور بنواتے۔