اسلام آباد (جیوڈیسک) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز پر فریقین وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلے محفوظ کرلیے جنہیں 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کی جس کے دوران فریقین کی جانب سے ریفرنسز کے قانونی نکات پر دلائل دیے گئے۔
سابق وزیراعظم کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت کی درخواست کی گئی جسے نیب کے اعتراض کے بعد عدالت نے مسترد کرتے ہوئے دونوں ریفرنسز پر فیصلے محفوظ کرلیے اور اعلان کیا کہ 24 دسمبر کو فیصلہ سنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے ہی سنایا جاچکا ہے جس میں نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں 87 اور ارشد ملک کی عدالت میں 78 مرتبہ پیش ہوئے اور مجموعی طور پر وہ 165 مرتبہ احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
آج سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں نئی دستاویزات پیش کرتے ہوئے نیب ریفرنسز کے قانونی نکات پر حتمی دلائل مکمل کیے جس کے بعد پراسیکیوٹر نیب نے دلائل دیے۔
خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے حسن نواز کی کمپنیوں سے متعلق نئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں جو لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سے تصدیق شدہ ہیں۔
خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ یہ کہتے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ نہیں اور اس پر تو لکھا ہے یہ تفتیشی رپورٹ ہے جب کہ اس رپورٹ کا نام ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیشی رپورٹ ہے۔
خواجہ حارث نے نواز شریف کی ملازمت اور تنخواہ سے متعلق عدالتی سوالات کے جواب بھی دیے اور کہا کہ نواز شریف کی یہ ملازمت صرف ویزا حاصل کرنے کے لیے تھی، وہ وہاں سے تنخواہ لے سکتے تھے مگر تنخواہ وصول نہیں کی۔
خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے کہا اگر وہ تنخواہ آپ نے نہیں بھی نکلوائی پھر بھی اثاثہ ہے جس پر میرا مؤقف ہے کہ تنخواہ کا تعین صرف ملازمت کے کنٹریکٹ کی حد تک تھا اور وہ صرف کنٹریکٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تھا، مقصد تنخواہ لینا نہیں تھا۔
خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کا اس کمپنی میں عہدہ صرف رسمی تھا،کمپنیاں چلانے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
جج ارشد ملک نے استفسار کیا تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لیں تو اس کا کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا تعلق یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا جسٹس آصف سعید کھوسہ کے 20 اپریل والے فیصلے پر نظرثانی نا کرنے کا بھی جواب دیتا ہوں، اکثریتی فیصلہ ہی ہمیشہ اصل فیصلہ مانا جاتا ہے، 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور انہوں نے اپنا فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا اور 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے۔
خواجہ حارث نے کہا 28 جولائی کے اسی 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دی تھی۔
یاد رہے کہ نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے گزشتہ روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے، اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پیر کے روز اپنے حتمی دلائل مکمل کیے تھے۔
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔
عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔
نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔
شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی تھی۔