اَب اِسے دنیا محض اتفاق کہہ لے یا کچھ اور نام دے کر غور کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو پڑوسی ممالک جن کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے بھی پڑوسی ہیں جیسے ”ب “ سے بھارت اور ” پ “ سے پاکستان ہیں اور اتفاق سے دونوں ہی ممالک اپنے خطے میں ایٹمی طاقت کا بھی درجہ رکھتے ہیںاوراَب تویہ نقطہ بھی کسی عجیب اتفاق سے کچھ کم نہیں ہے کہ اِن دونوں پڑوسی ممالک کے وزرائے اعظموں کے نام کے پہلے حرف بھی حرفِ تہجی ایک جیسے حرف ”ن“سے شروع ہوتے ہیں یعنی کہ بھارت کے وزیراعظم کا نام بھی ” ن“ سے” نریندر مودی “ہے توپاکستان کے وزیراعظم کا نام بھی نون سے ہی شروع ہوتا ہے یعنی کہ ”ن “ سے” نواز شریف “ہے۔
مگریہاں یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ جنوبی ایشیاکے اِن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جہاں اتنی مماثلت پائی جاتی ہے تووہیں یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف ہمارے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف ہیں جن کی خصلت میں نرم مزاجی اور عفوودرگزراور ملنساری کا عنصرکوٹ کوٹ کر بھراہواہے اور یہ خطے میںاپنی حکمرانی اور سیاسی تدبر اورفکرکے حوالے سے ایک سُلجھے ہوئے انتہائی شریف النفس وزیراعظم کا درجہ رکھتے ہیں تووہیں دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی ہیں جن کی جبلت میں پیدائشی طورپر جذباتیت اور تشددپسندی کا غلبہ ایسے موجودہے کہ اِن پر اپنے مذہب وقوم کی طرف سے انتہاپسندی اور مسلم خونی ہونے کا دھبہ لگاہواہے۔ اگرچہ موجودہ حالات اور واقعات کے حوالوںسے دونوں ہی ممالک کے عوام کے لئے یہ ایک عجیب کیفیت ہے کہ دونوں ہی ممالک کے عوام اپنے بہترمستقبل اور مسائل کے حوالوں سے ایک عجیب ملگجی روشنی میں ہیں۔
جبکہ اُدھر دونوں ہی ممالک کے وزرائے اعظم خطے میں پائیدارقیام امن اور مستحکم معیشت کے لئے ایک دوسرے کوخطوں لکھ رہے ہیں،ایسے خطوں جنہیں مجھ سمیت دونوں ممالک کے بہت سے لکھاری لولیٹرسے تعبیرکررہے ہیںاور کھلم کھلایہ قرارکررہے ہیں کہ دونوں ہی ممالک کے وزرائے اعظموںکی حدود صرف ایک دوسرے کو لولیٹرلکھنے تک ہی محدودہیں اور دونوں ہی ممالک کے وزرائے اعظم اپنی مرضی سے ایک قدم بھی اِس سے آگے نہ بڑھنے کے پابندہیں کیوں کہ اِن پر اپنی جماعتوں کے اراکین اور اپنی اپوزیشنز کی طرف سے اتنے دباو¿ ہیں کہ یہ سوائے ایک دوسرے کو اُمیدافزااور محبت بھرے لولیٹرزلکھنے کے اور کچھ کرہی نہیں سکتے ہیں۔بہرحال …!ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے بھیجے گئے پہلے خط کے جواب میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے بھی یکدم ایساہی ایک لولیٹروزیراعظم نوازشریف کے لئے بھی لکھ بھیجا ہے جس میں بھارتی وزیراعظم نے وہی الفاظ جابجادہرائے ہیں جیسے کہ ہمارے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خط میں خطے میں قیام امن سے متعلق اپنی بے شمار پیشکش بھارتی وزیراعظم دی تھیں۔
Pakistan, India
جبکہ آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نوازشریف کو جو جوابی خط تحریرکیا ہے اِس میں اِنہوں نے سب سے پہلے تو پاکستانی ہم منصب کی طرف سے خطے میں پائیدارقیام امن اور دونوں ممالک کی مستحکم معیشت کو مزیدبہتربنانے کی پیشکش پر مثبت تاثرات کے اظہارپر شکریہ اداکرتے ہوئے یہ بھی لکھاہے کہ بھارت بھی پاکستان کے ساتھ تشدد اور کشیدگی سے پاک دوطرفہ تعلقات چاہتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم نے اپنے خط میں کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں کے ہونے والے حملے کو بربریت قراردے کر اِس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے( ایسالگتاہے کہ جیسے بھارتی وزیراعظم نے اپنی اِس مذمت سے اِس تاثر کو بھرپورطریقے سے زائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں کے ہونے والے حملے سے بھارت کا کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ راقم الحرف کے نزدیک ایساہرگزنہیں ہے جس تاثرکی مذمت کرکے بھارتی وزیراعظم نے زائل کرنے کی کوشش کی ہے)۔
یہاں یہ امر بھی کسی حدتک حوصلہ افزاہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے خط میں یہ اُمیدبھی ظاہر کی ہے کہ امن و دوستی اور تعاون سے عبارت پاک بھارت تعلقات سے نوجوانوں کے لئے بھی بے پناہ مواقع پیداہوں گے اور خطے میں ترقی کی رفتارمزیدبہترہوگی جبکہ یہاں ایک غورطلب نقطہ یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے خط میںکوئی بھی ایک لفظ ایسانیانہیںتھاجس پر ہم یہ کہہ سکیں کہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے خط میں کوئی ایک نئی بات اور خطے میں قیام امن اور دونوں ممالک کی معیشت کو بہتربنانے کے لئے نیامنصوبہ یا کوئی نیاجملہ لکھاہوایسی ساری باتیں ہمارے وزیراعظم نوازشریف تو پہلے ہی اپنے خط میں لکھ چکے ہیں اور نریندرمودی سے پہلے ہی وہ سب کچھ کہہ چکے ہیں کہ آج جس کا جواب بھارتی وزیراعظم نے اپنے خط میں مثبت اندازسے دیاہ ے۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے وزیراعظم نوازشریف کا جب بھی دورِ حکمرانی یا دورِ اقتدارآیا ہے ہمیشہ ہی وزیراعظم نوازشریف کی یہی کوشش رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ ایک اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم کئے جائیں اَب یہ اور بات رہی کہ ہمیشہ بھارتی حکمرانوں نے وزیراعظم نوازشریف کے اِن نیک جذبات کی کبھی بھی قدر نہ کی اور ہر مرتبہ بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان کی جانب سے خطے میں پائیدارقیام امن اور دونوں ممالک کے درمیان بہترمعیشت اور دونوں طرف کے عوام کے درمیان مثالی دوستی کے عمل کو پروان چڑھانے جیسی حکمتِ عملی کی ہر اچھی پیشکش کو شک کی نگاہ سے دکھااور پاکستان کے ہر اچھے عمل کو دیدہ ودانستہ سبوتاژ کیامگر یہ ہمارے ہی حکمرانوں ، سیاستدانوں اور عوام کا ہی اعلیٰ ظرف ہے کہ ہم اپنے اِس عمل سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے اور ہرمرتبہ ایک نئے جذبے کے ساتھ بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایااوربس..!!مگرہر بار بھارتی حکمرانوں کی طرف کوئی مثبت جواب نہیںدیاگیااور مرتبہ بھی وزیراعظم نوازشریف نے اپنے ہم منصب بھارتی ویزراعظم کو اچھے جذبات کے ساتھ خط لکھ کر پہل کی ہے اور اِن کے خط کے جواب میں بھارتی وزیراعظم کا بھی خط آگیاہے مگر اَب دیکھنایہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم اپنے خط میں لکھے گئے ایک ایک لفظ اور ہر جملے پر کتناپورااُترتے ہیںاور خطے میں قیام امن کے لئے ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی طرح کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔