تحریر : نوشاد حمید پُرانے زمانے میں رواج تھا کہ چورکے پکڑے جانے پر اُسے خوب ڈانٹ ڈپٹ اور مار کُٹ کی جاتی، پھر اُس کا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا کر پُورے شہر میں پھرایا جاتا، یوں اس حد درجہ کی رُسوائی سے دُوسرے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوتی اور جرائم میں کمی واقع ہوتی۔ پر اب کی بار کچھ الگ معاملہ ہی دیکھنے کو ہوا ہے۔ عدالت سے چور اور مجرم قرار پانے والا خود اپنی رُسوائی کا جلوس لے کر بڑے اہتمام سے نکلا۔ افراد تو کم ہی تھے بس اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت وبلتستان سے ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں ضرور اکٹھی کر لی گئیں، جن میں سے بیشتر چوری کی یا اسمگل شدہ تھیں۔ ان گاڑیوں میں بھی اکثر میں ڈرائیور کے علاوہ اور کوئی ذی نفس دیکھنے کو نہیں مِلا۔ سو سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ایک سزا یافتہ چور کا جلوس بڑی ‘شان’ سے روانہ ہوا۔ جوں جوں قافلہ آگے بڑھتا رہا، شرکاء کی تعداد میں کمی واقع ہوتی رہی۔ ہاں سڑکوں کے کنارے ایک جمِ غفیر اس عدالتی مجرم کو بطور عبرت دیکھنے کے لیے اکٹھا ضرور ہوتا تھا، لوگ تو دیکھنا چاہتے تھے کہ جُرم پکڑے جانے اور سزا مِلنے کے بعد کوئی شخص کتنا خفت زدہ اور شرمندہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا اسے اپنی کیے پر کوئی پشیمانی بھی ہے یا نہیں۔ مگر سابقہ وزیر اعظم لوگوں کو ہجوم کو اپنی پذیرائی کا انداز سمجھ کر خوش ہوتا رہا اور من ہی من میں اسٹیبلشمنٹ، جس کا یہ بذاتِ خود پروردہ ہے اور دیگر ریاستی اداروں کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کا پروگرام ترتیب دیتا رہا۔ دُنیا کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مثال ہو گی جب حکومت نے اپوزیشن کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔
ویسے ابھی تک صاحبِ عقل و فہم حیرانی کے عالم سے باہر نہیں آ رہے کہ یہ لانگ مارچ کس کے خلاف تھا؟ اپنی ہی جماعت کی حکومت اور کٹھ پُتلی وزیر اعظم کے خلاف؟ اپنی کرپشن سے دلبرداشتہ ہوئی عوام کے خلاف ؟ یا برادرِ خورد شہباز شریف کو یہ بتانا مقصود تھا کہ معزولی کے بعد بھی سیاسی طاقت کا منبع نواز شریف کی ذات ہی ہے۔ سو چھوٹا بھائی اپنی کریز میں رہ کر ہی کھیلے اور کپتانی کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ مگر ان میں سے کسی ایک پلان میں بھی کامیابی کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ اُلٹا عوام اور میڈیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس وقت درجہ سوم کے معدودے چند سیاست دانوں اور موقع پرستوں کے علاوہ کوئی اہم سیاسی لیڈر نواز شریف کے ساتھ نہیں ہے۔
چودھری نثار پہلی دفعہ بہت زیادہ کھُل کر سامنے آئے جب انہوں نے برملا کہا کہ 99 فیصد نواز لیگی رہنما اس ریلی کے حامی نہیں ہیں۔ بڑے بڑے اہم سیاسی بُرج نواز شریف کی اس ریلی سے کنّی کتراتے نظر آئے۔ غالباً انہیں احساس ہو گیا کہ نواز شریف کی سیاسی سفینہ غرقابی کے قریب ہے سو اس سفینے میں مزید ٹھہرنا عوام کی نظروں میں رُسوائی اور اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے۔ اس لحاظ سے نواز شریف کو اپنی دم توڑتی سیاسی طاقت کا صحیح اندازہ ہو گیا ہو گا۔ شاید اب آ کر نواز شریف اپنی انا کے خول سے باہر آ گیا ہے، مگر ڈھٹائی اور میں نہ مانوں والی پالیسی برقرار رہے گی۔ کیونکہ مسئلہ اب وزارتِ عظمیٰ سے زیادہ اپنی جان بچانے کا ہے اور محاذ آرائی کا سارا سٹیج اسی لیے سجایا گیا ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ معصوم حمزہ جس گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک ہوا، اس گاڑی میں معزول وزیر اعظم نواز شریف بذاتِ خود سوار تھا۔اگر اس قاتل گاڑی میں کوئی اسمبلی ممبر سوار ہوتا تو یہ فوراً اُسے گرفتار کروا کے اپنی بلّے بلّے کروا دیتے۔ اور اگر گاڑی خالی جا رہی ہوتی تو ڈرائیور کو ضرور گرفتار کرواتے۔ کیونکہ یہ اپنی ماضی کی روایت کے مطابق اپنی جماعت کے کسی ایم این اے، ایم پی اے کی کرپشن یا کوئی اور جُرم بے نقاب ہو جانے پر اُسے خود گرفتار کرواتے رہے تاکہ عوام میں یہ تاثر قائم رکھا جائے کہ اُن کے عظیم قائدین کرپشن اور مجرمانہ سرگرمی کو برداشت کرنے کو قطعاً تیار نہیں۔ ستم یہ ہے کہ بچے کو کچلنے کے بعد رُکنا تک گوارا نہیں کیا گیا۔
برصغیر کے عظیم اداکار دلیپ کمار نے ایک دفعہ انٹرویو میں بتایا کہ فلم مغلِ اعظم کی شوٹنگ کے دوران وہ اتنے کامل طریقے سے جہانگیر کے کردار میں ڈھل گئے تھے کہ فلم مکمل ہونے کے چھے ماہ بعد تک بھی وہ اپنے آپ کو شہنشاہ جہانگیر خیال کرتے رہے اوران پر سے یہ کیفیت چھٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ حتیٰ کہ اُنہیں اس صورتِ حال سے باہر آنے کے لیے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا پڑا۔ عین یہی کیفیت اس وقت اقتدار سے معزول نواز شریف کی ہو چکی ہے۔ اسے اپنی کئی دہائیوں پر محیط بادشاہت کا یوں ذِلت انگیز انداز میں اختتام ہو جانے کا یقین نہیں آ رہا۔ نواز شریف کے ‘معصومانہ’ سوالات ‘مجھے کیوں معزول کیا گیا؟ مجھے کیوں نکالا گیا’ پر جواب آں غزل کے طور پر اس وقت سوشل میڈیا پر بہت ہی ہیبت ناک قسم کے چٹکلے گردش میں ہیں۔
ویسے ابھی تک نواز شریف دانت پِیس رہا ہے کہ اُس کی ساری سیاست جی ٹی روڈ کے اِرد گرد گھومتی ہے اور اسی روڈ پر اُس کی سیاست کی تکفین و تدفین ہو گئی۔ اپنی سیاسی بقاء کی خاطر جس لانگ مارچ کو وہ چشمۂ آبِ حیات سمجھا تھا درحقیقت وہ اُس کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہوا۔ عاقبت نااندیش مشیروں نے اُسے ایک بار پھر مروا دِیا۔ نواز شریف کی سیاسی اہلیت و بصیرت کا اندازہ بھی اسے بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودھری نثار علی خان نے اُسے جن مارِ آستین مشیروں وزیروں سے دُور رہنے کا مشورہ دِیا تھا، اور اُنہیں اس کی سیاسی تباہی و بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، اُنہی چار پانچ لوگوں کو نئی کابینہ میں بہترین عہدوں پر فائز کر دیا۔ کیونکہ قابلیت کا معیار قائد کی خیر خواہی نہیں، بلکہ اُس کی خوشامد اور قدم بوسی قرار پائے۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیاآلِ شریف نے اپنے تمام بڑے بزرگوں اور رشتہ داروں کی قبریں جاتی عمرہ میں ہی بنوائی ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ نواز شریف کا اسلام آباد سے واپس جاتی عمرہ آنے کا مقصد اپنی سیاست اور شخصیت کو خود اپنے ہاتھوں دفنانے کا اہتمام کرنا تھا۔ تاکہ اپنی سیاست کے مزار پر آہ و زاری کرنے اور فاتحہ پڑھنے کے لیے کہیں دُور جانے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔
نواز لیگیوں کی ریلی کے دوران نوا ز لیگی ممبرانِ اسمبلی کی اپنے قائد سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اُس کے آخری سیاسی استقبال پر ایک کوڑی خرچنے کو تیار نہیں تھے۔ لاہور کی سیاسی قیادت نے مسلم لیگ کے ٹریڈرز وِنگ کے تاجروں سے رابطے کر کے اُنہیں کروڑوں روپیہ چندہ اکٹھا کرنے کا ٹاسک دیا۔ سو جنہیں پہلے سے سُوہ مِل گئی تھی اُنہوں نے تو فون ہی نہیں اُٹھائے۔ اوران میں سے کچھ عین موقع پر کاغان ناران، مری اور دیگر پُرفضا مقامات پر روانہ ہو گئے اور اُن کے فون بھی بندہو گئے۔ شاید اسی کو عوامی اور تجارتی طبقہ میں مقبولیتِ بے پناہ کا نام دِیا جاتا ہے۔ شہروں میں چند سو تماشبین ضرور اکٹھے ہو گئے وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں کو لُوٹنے کے لیے، جنہیں ممبران اسمبلیشادی بیاہ کے موقع پر ویلوں کی طرح لُٹا کر کچھ رونق میلہ قائم رکھنے کے جتن میں لگے رہے۔مگر جب قافلہ شہر سے باہر نکلتا تو وہی ویرانی، سُنسانی دیکھنے کو مِلتی جس کا آغاز قافلے کے اسلام آباد راولپنڈی سے نکلتے وقت ہی ہو گیا تھا۔
پنجاب کی ساری انتظامیہ شہباز شریف کے ہاتھ میں تھی۔ اگر وہ چاہتا تو پٹواریوں، سرکاری ملازموں اور گلو بٹوں پر نوٹوں کی برسات کر کے اچھی خاصی تعداد میں بندے اکٹھے کر لیتا۔ مگر اس کی جانب سے ہر شہر کے پارٹی عہدے داروں کو یہی ہدایات جاتی رہیں کہ بس ‘گونگلوئوں’ سے مٹی جھاڑنی ہے۔ زیادہ ‘کھیچل نہیں کرنی۔ اور شہباز شریف محنت کرتا بھی کیوں، جب کہ اُسے پتا لگ چکا ہے کہ نواز شریف کے پاس جب تک اختیار ہے، وہ اُسے یا اُس کی اولاد میں سے کسی کو بھی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز نہیں ہونے دے گا۔ سو یہ وقت تو شہباز شریف کا اپنے بڑے بھائی کی مطلق العنانیت سے آزادی کا ہے۔ یہ وقت نواز خاندان سے شہباز خاندان کی طرف ولی عہدی کی منتقلی کا اِکلوتا موقع بن کر اُبھرا ہے۔ اس بار کے یومِ آزادی پر جتنا جشنِ شہباز شریف نے منایا ہے، شاید ہی کسی اور نے منایا ہو، کیونکہ اس جشن میں نواز شریف کی معزولی کے ساتھ ساتھ، حالیہ فلاپ مارچ کی ناکامی نے خوشیوں کو دوبالا کر دیا ہے۔
پہلی بار نواز شریف اپنے پروٹوکول اور دوسری مراعات کے لیے شہباز شریف کا محتاج بن کر رہ گیا ہے۔ دیکھیں اب کیا بنتی ہے، اور کب ساجھے داری کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھُوٹتی ہے۔شہباز شریف دکھاوے کے لیے لاہور میں تقریر کر گیا،پُوری تحریک اور ریلی سے کنارہ کش رہنے والا برخوردار حمزہ شہبازنے بھی حاضری دے دی، مگر یارانِ نکتہ دان نے اشارے سمجھ لیے ہیں۔ ابھی بھی نواز شریف کے مُٹھی بھر حامی اگر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شریف خاندان متحد اور ایک پیج پر ہے، اُن کا یہ گمان مستقبل قریب میں شکست سے دوچار ہونے ہی والا ہے ۔ ذلت اور رُسوائی ان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گی۔ پُوری دُنیا میں ان کا تماشا لگ گیا ہے۔ یہ اب کسی اور مُلک میں سرمایہ کاری کرنے کے تو کیا رہائش رکھنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ انہیں اب سزا دینے یا جیلوں میں ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ مزید ذلت سے بچنے کے لیے خود کو جاتی عمرہ میں نظر بند کر لیں گے۔ ان کی آئندہ کئی نسلوں کو ان کی کرپشن اور لُوٹ مار کے نتیجے میں مِلنے والی ذلت و رُسوائی کا عذاب سمیٹنا پڑے گا۔