تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم نواز شریف کی سوچ اور فکر میں اقلیتوں کے حوالے سے تبدیلی خوش آئند ہے اور پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ حالیہ دور میں وزیراعظم نواز شریف نے ہندوؤں، پارسیوں اور مسیحیوں کے مقدس تہواروں کے پروگراموں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اقلیتوں کے حوالے سے حوصلہ افزاء بیانات بھی دیے جو اس سے پہلے کبھی نہی دیے گیے تھے۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ اقلیتوں کے وزیراعظم بھی ہیں اور ان کی چادر اور چاردیواری کے تقدس کو یقنی بنائے نگے۔
بنیادی طور پر ن لیگ کا زیادہ جھکاؤ دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مزہبی انتہا پسند جماعتیں ن لیگ کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ بحرحال مسیحی کمیونٹی نے وزیراعظم میں اس خوشگوار تبدیلی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح ہیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اقلیتوں کے حوالے سے بہت مثبت اور حوصلہ افزا بیانات دیے ہیں انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی اقلیتی وزیراعظم کودیکھنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے لئے کیا مشکل ہے وہ اپنی پارٹی سے کسی اقلیتی رکن کو جنرل سیٹ سے انتخاب جتوا کر اسے اپنی پارٹی کی طرف سے وزیراعظم نامزد کر دیں۔
اب ان کا نامزد کردہ وزیراعظم اگر ہار بھی جائے تب بھی بلاول بھٹو کے قد میں اضافہ ہوگا ۔ مگر اقلیتوں کا خواب پاکستان کا وزیراعظم بننا تو بعد کی بات ہے پہلے ان کو برابری کے حقوق دینے کے لئے عملی طور پر اقدامات کرنے ہونگے جو نظر بھی آنے چاہئے۔ کیا ہمارے ان لیڈرز کو اقلیتوں کے حوالے سے صرف بیانات کی حد تک رہنا چاہیے یا پھر ملک سے مزہبی تعصب اور غیر منصفانہ سلوک کے خاتمے کے لیے کسی جامعہ منصوبہ بندی کا آغاز کرنا چاہیے پاکستان کی تاریخ میں نواز حکومت یا پھر نواز شریف کا دور اقلیتوں کے حوالے سے انتہائ ناقابل برداشت رہا ہے۔
پنجاب میں اقلیتوں کے ساتھ جتنے ظلم یا غیر منصفانہ حالات نواز لیگ کے دور میں اور پنجاب میں ہوئے وہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں نہی ہوئے ۔ اور اگر پنجاب میں ہوئے بھی تو پنجاب حکومت کی جانب سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئ قابل زکر اقدامات نہی کیے گیے ۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہے (روزنانہ جنگ 9 جنوری) تیس لاکھ ووٹرز کا مطلب یہ ہوا کہ تیس لاکھ اقلیتی بالغ موجود ہیں اس پر اگر مضید تحقیق کریں تو مثال کے طور پر ماں اور باپ کا ووٹ ہے اور ہمارے معاشرے میں ہر خاندان میں چار سے پانچ بچے موجود ہیں میں اگر ایک خاندان کو تیس لاکھ ووٹرز کے حساب سےچار سے ضرب دوں تو پاکسان میں اقلیتوں کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے ۔ جو کہ کل آبادی کا تقریبا چھ فیصد بنتا ہے جو کہ حکومتی اعدادوشمار کی غلط بیانی کا منہہ بولتا ثبوت ہے۔
Pakistani Christians
اب اگر ہم عام انتخابات کا جائزہ لیں تو ایک عام ممبر قومی اسمبلی اگر ایک لاکھ ووٹ بھی اوسط کے حساب سے لیتا ہے تو اقلیتوں کی قومی اسمبلی میں تیس نشستیں ہونی چاہیں جبکہ صرف دس نشستیں ہیں جو کے زیادتی ہے۔ اس پر بھی زیادتی یہ ہے کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو اپنی مرضی کے نمایندے منتخب کرنے کا حق نہی ہے ۔ اور ان پر سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ارکان کو مسلط کیا جاتا ہے جن کا مقصد صرف اپنے آقاؤں کو خوش کرنا ہوتا ہے جنہوں نے ان کو پارلیمنٹ میں پہنچا کر ان پر مہربانی کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مسیحی ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ ہے مگر قومی اسمبلی میں مسیحیوں کی نمایندگی صرف تین ممبرز کر رہے ہیں۔ اب عجیب بات یہ ہے کہ 1985 میں قومی اسمبلی میں مسیحیوں کی تعداد 4 تھی جو آج 31 سال بعد تین ہے۔ پنجاب میں مسیحی ووٹرز کی تعداد تقریبا دس لاکھ کے قریب ہے اور پنجاب اسمبلی میں صرف 6 مسیحی نماینئدے ہیں یہ تعداد مسیحی ووٹوں کے تناسب کے حساب سے آدھی سے بھی کم ہے۔ اور جو نمائیندے ہیں وہ بھی ن لیگ کے ہیں مسیحیوں کے نہی ہیں۔ کیا کوئ ایسی قانون سازی پنجاب اسمبلی میں دیکھنے میں آئ ہے کہ جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہو۔
میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیوں کو برابری کا درجہ کیوں نہی دیا جاتا۔ میرا سوال یہ نہی ہے کہ اقلیتیں غریب ہیں۔ کیوں پاکستان میں مسلمان بھی غریب ہیں۔ میرا یہ بھی سوال نہی ہے کہ اقلیتوں کے سر پر اپنی چھت نہی ہے کیوںکہ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کے پاس بھی اپنی چھت نہی ہے۔ مجھے اقلیتوں کے لئے حکومت پاکستان سے روٹی بھی نہی چاہئے کیوںکہ پاکستان میں بہت سے مسلمان بھی اپنی روٹی بہت مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ ایک گھر کے لوگوں میں اگر پیار، محبت، اتحاد اور یگانگت ہو اور ان میں آپسی طور پر کسی بھی قسم کی کوئ تفریق نہ ہو تو اس گھر کو کوئ مائ کا لال نقصان نہی پہنچا سکتا۔ اور اس گھر کے مکین کسی بڑی سے بڑی مشکل کا سامنا بھی متحد ہو کر کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرد م شماری کا حکم دیا ہے اور حکومت اپنے طور پر اس کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ اگر مردم شماری صاف اور شفاف ہوتی ہے تو حکومت کو تمام مزہبی، لسانی اور فرقہ کی تفریق کے بغیر تمام پاکستانیوں کو برابری کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعُبے حصہ ملنا چاہئے۔ پانچ فیصد کوٹے کی لالی پاپ کو یا تو پھینک دیں یا پھر اگر ضرورت پڑے (جامعہ منصوبہ بندی تک) تو ایمانداری سے اس پر عمل کیا جائے ۔ اور اقلیتوں کو تعلیمی، سیاسی، سماجی اور ہر میدان میں حصہ ملنا چاہئے۔
پاکستان میں اقلیتی نمایندوں کو بھی ا لیکشن کے زریعے منتخب ہونا چاہئے کیونکہ سلیکشن کے نظام کا نقصان سو فیصد اقلیتوں کا نقصان ہے ۔ اقلیتوں کے نمایندے اگر اقلیتی ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے نگے تو ان کا رابطہ اقلیتی عوام کے ساتھ برائے راست ہوگا۔ اور یہ نمایندے عوام کو جوابدہ ہونگے۔ اور اگر یہ عوام کی خدمت نہی کریں گے تو عوام ان کو اگلے انتخابات میں مسترد کر دیں گے۔