مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل پانچ مئی کو موجودہ وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف نے تلہ گنگ میں جلسہ کیا جس میںانہوں نے کہا تھا کہ منتخب ہو کر تلہ گنگ کو ضلع بنائیں گے، تلہ گنگ میں میڈیکل کالج، یونیورسٹی اور جدید ہسپتال کی سہولت فراہم کی جائے گی ،الیکشن آیا گزر گیا۔ گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے ضلع چکوال سے کلین سویپ کیا، قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں ”ن” لیگ نے ہی جیتیں،این اے اکسٹھ سے ن لیگ کے امیدوار سردار ممتاز خان ٹمن کے مقابلہ میں سابق ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الہی تھے جن کا تعلق گجرات سے ہے مگر ان کے بیٹے راسخ الہی کی تلہ گنگ کے نوجوان حافظ عمار یاسر کے ساتھ دوستی کے بعد انہوں نے تلہ گنگ سے دو بار الیکشن لڑا اور شکست سے دو چار ہوئے، ممتاز خان ٹمن اپنے بھانجے سردار فیض ٹمن کے اسمبلی سے استعفیٰ کے بعدپیپلز پارٹی سے”لوٹا” بن کر مسلم لیگ(ن) میں گئے اور الیکشن جیتے تھے۔
مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی شکست نظر آرہی تھی مگر میاں نواز شریف کے اعلان کے بعد عوام نے ایک بار پھر انہیں مینڈیٹ دیا اور این اے اکسٹھ کی سیٹ ”ن” لیگ کی گود میں ہی چلی گئی،آج سات ماہ ہونے کو ہیں نواز شریف نے اہلیان تلہ گنگ کے ساتھ کئے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے اس سے بڑھ کر یہاں سے جیت کر اسمبلی میں پہنچنے والے عوامی نمائندے بھی عوام کی نظروں سے غائب ہونے لگے ،ظہور انور تو علاج کی غرض سے لندن پہنچ گئے مگر ”بابا شکاری” کہاں گئے عوام کو نہیں پتہ،عوام انہیں ڈھونڈ رہی ہے کیونکہ وہ الیکشن کے دنوں میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔سابق صوبائی وزیر ملک سلیم اقبال بھی ”پردہ نشینوں ” میں شامل ہو چکے ہیں ۔انہوں نے بھی عوام سے وعدے کئے تھے ،اب بلدیاتی الیکشن آ چکے ہیں،ملک سلیم اقبال نے ایک نجی محفل میں کہا تھا کہ بلدیاتی الیکشن سے پہلے پہلے تلہ گنگ ضلع بن جائے گا، ”مشیر” بننے کے خواہشمند عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں،میاں نواز شریف کے جلسہ کے بعد ذوالفقار دولہہ نے کہا تھا کہ مجھے ٹکٹ ملا تو نواز شریف نے تلہ گنگ کو ضلع بنانے کا اعلان کر دیا ،وزار ت کے خواہشمند ”دلہہ” بھی آج عوامی عدالت میں تلہ گنگ کو ضلع بنانے کے حوالہ سے جواب دینے سے کترا رہے ہیں،رہی بات بابا جی کی تو انہوں نے ”چپ” کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
کہتے ہیں کہ بابا جی نے قومی اسمبلی میں ”چپ ” رہنے کا ریکارڈ اس وقت توڑا جب ایک بار دوران اجلاس بجلی گئی تو بابا جی چلائے کہ ”اوئے جرنیٹر چلائو”اس کے علاوہ انہوں نے سوائے اراکین اسمبلی کے ساتھ دعا سلام کے کبھی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی بحث میں حصہ لیا۔ان سے تلہ گنگ کی عوام کو کسی قسم کی توقعات نہیں رکھنی چاہئے ۔ہاں اگر کہیں ”کتوں ” کے ساتھ ”شکار ” ہو رہا ہو اور بابا جی کو خبر مل جائے تو وہ خود پہنچ جائیں گے اور شکار کریں گے۔ملک سلیم اقبال نے ان یونین کونسلوں سے جو عوام کی مرضی کے بغیر تحصیل لاوہ میں شامل کی گئیں وعدہ کیا تھا کہ وہ انکو دوبارہ تلہ گنگ میں شامل کروائیں گے بس ایک بار مسلم لیگ(ن) کامیاب ہو جائے ۔اب مرکزمیں بھی حکومت ہے ،پنجاب میں بھی مسلم لیگ(ن) کی ہی حکومت ہے لیکن شاید ملک سلیم اقبال اس وقت جوش میں آ کر عوام سے وعدے تو کر بیٹھے لیکن اب ”ن” میں انکی دال نہیں گل رہی۔
Muslim League (N)
تلہ گنگ کی عوام آج حکومت سے سوال کرتی ہے کہ چلیں میڈیکل کالج، یونیورسٹی اور جدید ہسپتال کے لیے تو وقت درکار ہے مگر تلہ گنگ کو ضلع بنانے کے لئے کتنا وقت اور چاہئے ،کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے عوامی حمایت کھو بیٹھے اور دوبارہ الیکشن میں ایک بار پھر تلہ گنگ ضلع بنائو کے کارڈ کو استعمال کیا جائے، عوام کو سوچنا ہو گا اور اپنے حقوق کے لئے خود نکلنا ہو گا تبھی حقوق ملیں گے۔آج جب تلہ گنگ ضلع بنائو تحریک ہر گھرمیں آواز خلق نقارہ خدا بن چکی ہے۔ تلہ گنگ ضلع بنائو مہم میں اہلیان تلہ گنگ کی کوششیں قابل تحسین ہیں، سوشل میڈیا پر ممتاز ٹمن و دیگر ”نونیوں” سے سوالات کئے جا رہے ہیں کہ ضلع کا اعلان کرنے والے کہاں غائب ہیں، سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارموں کے ذریعہ تلہ گنگ ضلع بنائو تحریک میں مزید تیزی لاکر سیاستدانوں کا محاسبہ کر کے مہم کامیاب کرنا ہو گی۔ تلہ گنگ کو ضلع بنانے کے سلسلہ میں مقامی لیڈر شپ خوف زدہ ہے کہ شاید ضلع کا درجہ حاصل ہونے سے تلہ گنگ میں نیا لیڈر نہ پیدا ہو جائے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عوام کو خود مخلص ہوکر تحریک چلانا ہو گی اور حکمرانوں کو جلد ازجلد اپنا وعدہ پورا کرنا ہو گا۔ حلقہ کے عوام تحریک میں حصہ لے کر سیاستدانوں کو مجبو رکردیں کہ اب انہیں اپنا حق ملنا چاہیے۔
تحصیل کو ضلع کا درجہ دینا سیاستدانوں اور عوام کا اجتماعی مفاد ہے جو پورا کرنا وقت کا اہم تقاضاہے تلہ گنگ شہر کو ضلع بنانے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ یہ آنے والی نسلوں کا ہم پر قرض ہے۔ الیکشن کے دنوں میں اس علاقہ کی ترقی کے دعویدار ووٹ لینے کے لیے تو ہر دوازے پر جاتے ہے مگر مقاصد پورے ہونے پر عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر عوام سے کیے گئے وعدے بھول جاتے ہیں تلہ گنگ کی محرومیوں کے خاتمہ کے لیے ان سیاستدانوں کو عوام کی ضلع بنائو مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ہر جماعت کے کارکن اپنے لیڈروں کو مجبور کردیتے ہیں مگر برسر اقتدار جماعت کے کارکنوں کا ضلع بنائو مہم پر اپنے لیڈروں کو مجبور نہ کرنا المیہ ہے اگر قیادت اور کارکن خلوص نیت سے کام کریں تو منزل آسان ہوجاتی ہے انشاء اللہ حلقہ کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تلہ گنگ ضلع بنائو پور اہوکر رہے گا۔
عوام کو ہی متحد ہو کر تلہ گنگ ضلع بنائومہم کامیاب کرنا ہوگی ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔مسلم لیگ(ن) کے نمائندے جو اسمبلیوں میں پہنچ چکے ہیں یا پارٹی کے ورکر ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے قائد کو اس بات پر مجبو ر کریں کہ وہ فوری تلہ گنگ کو ضلع بنانے کا اعلان کریں، ہو سکتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں صرف اس وعدے کی تکمیل کی وجہ سے مسلم لیگ(ن)کو مئی کے نتائج کے برعکس نتائج ملیں۔تلہ گنگ کی عوام کو سوچنا چاہئے کہ اگر سیاسی نمائندے اپنے ذاتی مفادات کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو عوام خود کیوں نہیں ؟اصل طاقت تو عوام ہی ہیں،تلہ گنگ کو ضلع بنائو تحریک میں مفادات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہو کر بھر پور تحریک سے ہی کامیابی ممکن ہے۔