تحریر: میاں وقاص ظہیر وقت خوش نما ہوا کا جھونکا ہے، وقت ظالم بھی، وقت زخم بھی ہے وقت مرہم بھی ، وقت بادشاہ بھی بناتا ہے اورفقیر بھی، وقت منصب بھی بنائے اور مجرم بھی ، جب سابق وزیر اعظم نواز شریف پنجاب ہاﺅس اسلام آباد سے لاہور کیلئے روانہ ہوئے تو مجھے نواز شریف کے آن دی ریکارڈ وہی الفاظ یاد ہے جو گودار ، مظفر آباد، اوکاڑہ اور دیگر کئی افتتاحی تقریبات میں نواز شریف نے کہے تھے کہ میں ان بھکاریوں کے کہنے پر استعفیٰ دوں گا ، میرے سامنے میاں نواز شریف کی پنجاب ہاﺅس سے روانگی کی تصویر ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور نوازشریف بغل گیر ہے ، نواز شریف کے دائیں جانب ان کے سمدھی اور اعداد کے ہیر پھیر کے ماہر اسحاق ڈار بھی موجود ہیں ، مجھے اس تصویر میں نواز شریف بے حد بے بس اور مفلس آیا ، ایسا مفلس جس کے پاس دنیا بھر کا مال ومتاع بھی ہے ، زندگی گزارنے کی بہترین آسائشیں بھی ہیں، لیکن وہ ہجوم میں تنہا ہے ، سرکاری مشینری ، علاقائی نمائندوں اور قومی خزانہ سے کروڑوں خرچ کرکے وہ عوام سے ان کی حمایت حاصل کرنے کی بھیک مانگے نکلا ہے ، میرے ملکی کسی بھی لیڈر سے ذاتی اختلاف نہیں ہیں ، میرے طاہر القادری اور عمران خان سمیت بہت سے سیاستدانوں سے نظریاتی اختلاف ہیں ، اگر یہ واقعی جمہوری معاشرہ ہے تو نظریاتی اختلاف کا حق ہرکسی کو ہے ، کیونکہ نفسیات کی تھیوری یہ ہے کہ جتنے انسان دنیا میں رہتے ہیں ، اس میں اس بات میں کوئی بعید نہیں کہ ان کے اتنے ہی نظریات ہیں۔
نوازشریف کو ہمیشہ سے ہی ایک بنیادی مسئلہ درپیش رہاہے ، خاکسار اپنی کئی گزشتہ تحریروں میں لکھ چکا جو ریکارڈ پر موجود ہیں کہ جب سے پانامہ کا ایشو سامنے آیا اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شور وواویلا بلند ہونا شروع ہوا تھا ، نواز شریف ایک قدم پیچھے آتے غیر جانبدرانہ انکوائری کرواتے ، جب اس میں کلیئر جو جاتے تو دوبارہ پھر اقتدار سنبھال لیتے ، اس سے نوازشریف کو دوہرا فائدہ ہوتا ، پہلا فائدہ نواز شریف خود کو احتساب کیلئے پیش کرکے عوام کی ہمدریاں حاصل کر لیتے اور آج انہیں یوںتحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرح کنٹینر لے کر باہر نہ نکلنا پڑتا ، مجھے تو عابد شیر علی کے ٹویٹ کے بیان سے بھی بے حد حیرت ہوئی جس نے آپ کو مرحب سے تشبہہ دی،عابد شیر علی اسلامی واقعات کا علم نہیں رکھے تو کم ازکم کچھ بولنے سے قبل جید علماسے ہی رہنمائی لے لیتے ورنہ سیاسی حلقوں میں جس طرح جگ ہنسائی ہوئی وہ ایک لمبی کہانی جس کیلئے سلسلہ وارتحریریں لکھی جاسکتی ہیں، میرے سمیت پوری قوم یہ بات جانتی ہے کہ آپ کے خوشامدی وزراءکس طرح ان کے کنٹینر کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ، نواز شریف آج پوچھیں خواجہ آصف کو کہ جنہوں نے ایوان پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ میاں صاحب! پانامہ عوامی ایشو نہیں ، لوگ جلد اسے بھول جائیں گے۔
میاں صاحب! ان دیگر خوشامدیوں وزاراور مشیروں سے بھی پوچھیں جو بار بار کہتے رہے ہیں کہ نوازشریف سے دنیا کی کوئی طاقت استعفیٰ نہیں لے سکتی ،آج نہ صرف اقتدار چھوڑنا پڑا بلکہ پورے خاندان بھی الزامات کے زیرعتاب آگیا ، نیب ریفرنس کے بعد کیا ہونا ہے یہ کہنا قبل ازوقت ، فقیر پہلے کئی بار کہہ چکا کہ جس دن سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی فائل کھولے گی اس دن ایک بار پھر پورے کا پورا سیاسی مناظر نامہ تبدیل ہوجائے گا ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ 14شہدا کے خون کے ذمہ دار سزا سے بچ جائیں جن کے سر پر بھی ان کا خون ہے ، مجھے تو نوازشریف کے اس بیان نے بھی ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا ہے کہ میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے نہیں نیا پاکستان بنانے نکلا ہوں ، میاں صاحب! نیا پاکستان کا نعرہ تو تحریک انصاف کا ہے آپ کو کس عقل مند نے یہ الفاط یاد کروائے، آپ شاید بھول رہے ہیں آ پ کی پارٹی اور وزرا نیا پاکستان کے نعرے کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ، یہ مکافات عمل ہے یا کچھ ہوں ،اب دیکھنا یہ ہے کہ جمہوری راگ الاپ نوازشریف بھی نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوں گے ۔۔۔یاں۔۔؟؟؟