آخرکار وزیراعظم میاں نواز شریف نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات اور ملک کو درپیش اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ملک کے دو اہم رہنماوں کی یہ ملاقات اور اہم معاملات پر تعاون کا اعلان ملک کی سیاست میں ایک خوش آئند رویہ کا اضافہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ طرفین کے درمیان اس ملاقات کا اہتمام محض قومی مفاد کے نقطہ نظر سے کیا گیا ہو۔ یوں تو بظاہر یہ ملاقات اچانک ہوئی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اچانک اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، معاون خصوصی عرفان صدیقی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ عمران خان کی رہائش گاہ پر جا پہنچے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بنفس نفین ان کا استقبال کیا اور شاید اتفاق سے ہی اس وقت عمران خان کی رہائش گاہ پر تحریک انصاف کے نائب صدر جاوید ہاشمی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیریں مزاری بھی موجود تھیں۔
ان اتفاقات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف سے ملاقات کی تیاری کی گئی تھی۔ یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ چوہدری نثار علی خان مسلسل عمران خان سے رابطہ میں تھے اور انہیں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بریف کرتے رہے ہیں۔ مذاکرات کے عمل میں حکومت کو ملک کے ایک طاقتور سیاسی طبقہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل سیاستدان مذاکرات کو وقت اور وسائل کا ضیاع قرار دیتے ہوئے انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے بار بار وعدہ خلافی اور رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود حکومت نے کسی نہ کسی طور مذاکراتی عمل جاری رکھا ہے اور اس سلسلہ میں اسے تحریک انصاف کی غیر مشروط تائید و حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ اس پس منظر میں وزیراعظم اور تحریک انصاف کے رہنما کی ملاقات ایک اہم قومی معاملہ پر دو ہم خیال سیاسی پارٹیوں کے درمیان ملاقات تھی۔ اس معاملہ میں تحریک انصاف کو خاص طور سے یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار ہے۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بھی اسی صوبہ کو بننا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ اگر انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو شمالی وزیرستان سے بے دخل ہونے والی آبادی کی عارضی آباد کاری کا بوجھ بھی اسی صوبے کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ عمران خان قبائلی علاقوں میں طالبان اور ان کے ہمنوا گروہوں کے خلاف کارروائی کے زبردست مخالف رہے ہیں۔
Military Operation
وہ اس قسم کے کسی بھی ایکشن کو تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں کوئی فوجی کارروائی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تاہم اس حوالے سے انہوں نے نہ تو ماہرین اور تبصرہ نگاروں کی اس رائے پر غور کیا ہے کہ اب حالات مختلف ہیں اور اب ٹیکنالوجی اور جنگ کرنے کے طریقے گزشتہ سو برس کے مقابلے میں تبدیل ہو چکے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی قبائلی عوام کے خلاف اقدام نہیں ہو گا۔ بلکہ یہ ایکشن اس علاقے میں قانون کی عملداری بحال کرنے کے لئے ضروری ہے۔
اس صورتحال کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے نتیجہ میں اگر دہشت گرد بیرونی عناصر اور قومی سطح پر جنم لینے والے انتہا پسند گروہوں کا قلع قمع کر دیا جاتا ہے تو یہ درحقیقت اس علاقے میں آباد لوگوں کو سماج دشمن عناصر سے آزاد کروانے کی کارروائی ہو گی۔ دہشت گرد قوتوں نے اسلحہ اور وسائل کی بنیاد پر اس علاقے کے لوگوں کو یرغمال بنایا ہؤا ہے اور حکومت مسلسل انہیں مضبوط ہوتا ہؤا دیکھتی رہی ہے۔ عمران خان اس معاملہ میں اپنے رویہ اور مؤقف میں بے لچک رہے ہیں۔ وہ اس جنگ کو امریکہ کی جنگ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ حکومت شمالی وزیرستان میں کارروائی امریکی ایما پر کر رہی ہے۔ اس سے قبل وہ ڈرون حملوں کو دہشت گردی میں اضافہ کی وجہ بتاتے رہے ہیں اور افغان جنگ میں پاکستان کی حمایت بھی ان کے خیال میں انتہا پسندی کے فروغ کا سبب بنی ہے۔
یہ ساری دلیلیں وہی ہیں جو سخت مذہبی تنظیموں نے اختیار کی ہوئی ہیں۔ اس لئے عمران خان لبرل، ماڈرن اور جمہوری سوچ کا دعویٰ کرنے کے باوجود جماعت اسلامی سے لے کر جماعت الدعوة جیسی قدامت پسند مذہبی قوتوں کے پسندیدہ سیاستدان رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند ہفتوں میں مذاکرات کو ناکام بنانے میں طالبان کی دہشت گردی نے جو رول ادا کیا ہے اور فوج نے جس طرح یہ واضح کیا ہے کہ وہ ہر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی سوچ میں بھی کافی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اب عمران خان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان کے جو گروہ مذاکرات کرنے سے انکار کریں، یا دہشت گردی میں ملوث رہیں، ان کے خلاف فوجی کارروائی ضروری ہو گی۔ وزیراعظم کے ساتھ عمران خان کی ملاقات بھی سوچ کی اسی تبدیلی کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں فوجی ایکشن کے نتیجے میں علاقے سے نکلنے والی شہری آبادی کے مسائل پر بھی غور کیا گیا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف نے مذاکرات کے حوالے سے یہ تجویز بھی پیش کی کہ حکومت کی طرف سے پولیو مہم کے تحفظ کا معاملہ بھی ان مذاکرات میں طے ہونا چاہئے۔
بظاہر اس ملاقات کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرنا تھا۔ لیکن ایجنڈے پر فوجی کارروائی کا متبادل بھی موجود تھا۔ عمران خان کا مؤقف تھا کہ اس وقت طالبان کے تمام بڑے گروہ مذاکرات اور امن کے حامی ہیں۔ انہیں قیام امن کا موقع ملنا چاہئے۔ اس کے بعد اگر کچھ چھوٹے گروہ امن سبوتاڑ کرنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف کارروائی ضروری ہو گی۔
اس دوران یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ متعدد وجوہات کی بنا پر فوری طور پر فوجی کارروائی ممکن نہیں ہے۔ ان میں ایک وجہ تو موسمی حالات ہیں۔ فوج دہشت گردوں کا پیچھا کر کے ان کا صفایا کرنے کے لئے موسم بہار کی آمد کا انتظار کر رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ اپریل میں افغانستان کے صدارتی انتخابات کا انعقاد ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو اندیشہ ہے کہ اس سے پہلے پاکستان کی جانب سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی سے افغانستان میں طالبان کے دباو میں شدت آ جائے گی۔
جس سے انتخابی عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے جو اس سال کے آخر تک افغانستان سے فوجیں نکالنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب کے تعاون سے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کیا گیا ہے۔ اب سعودی حکام پاکستان کی حکومت سے مذاکرات کی میز سجائے رکھنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز الفیصل نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران بھی اس معاملہ پر بات کی تھی۔ انعام کے طور پر پاکستان کو فوری ادائیگی کے بغیر تیل فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس وعدے کے بعد ادائیگیوں کے حوالے سے پاکستان پر دباو میں کمی آئی تھی۔ جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت سو روپے کی نفسیاتی سطح سے بھی نیچے آ چکی ہے۔