تحریر: حلیم عادل شیخ کیس یہ نہیں ہے کہ فلاں پراپرٹی نواز شریف کی ہے یا اس کی ملکیت ہے کیس کا آرگومینٹ یہ ہے کہ یہ ساری پراپرٹی نوازشریف کے بیٹوں کے نام پر ہے اور اگریہ پراپرٹی 1993،97 اور,96 میں خریدی گئی ہے تواس وقت تو نوازشریف کے بیٹے طالب علم تھے یا پھر انہوں نے اپنی تعلیم کو مکمل کیا ہوگا،لہذا اس زمانے میں وہ اس قدر مہنگے فلیٹ اور پراپرٹیاں کس طرح سے خرید سکتے تھے ؟۔سمجھایہ جاتاہے کہ یہ سارا پیسہ نواز شریف کا تھااور خریداری بیٹوں کے نام پر کی گئی ،کیونکہ زمانہ طالب علمی میں اتنی بڑی آمدنی یا زرائع آمدن ہوہی نہیں سکتا جبکہ پراسیکیوشن کا کیس یہ ہے کہ پیسہ نوازشریف کا ہے اور پراپرٹی بیٹوں کے نام پر ہے اور اگر پراسیکیوشن کا کیس غلط ہے تو بیٹوں کی اس وقت کی آمدنی کا ریکارڈ یا کوئی ثبوت دکھایا جائے ، جو فی الحال شریف خاندان یا ان کے وکیل ابھی تک نہیں دکھا پائے ہیں۔
پاکستان میں اگر کوئی شخص گھر خریدتا ہے توفوری طور پر انکم ٹیکس والوں کا نوٹس آجاتاہے کہ آپ اس پراپرٹی کا سورس بتادیں کہ یہ گھر کس طرح سے خریداگیاہے یعنی انکم ٹیکس والوں کو مطمئن کرنے سے قصہ ختم ہوجاتاہے ، اور یہ قانون ہر ملک میں موجود ہے مگر نواز شریف کے کیس میں کسی بھی پراپرٹی کی کوئی رسید نہیں سوائے ایک قطری خط کے ۔ان تمام باتوں کے باوجود میاں نواز شریف صاحب واجد ضیاکے بیان پرآج کل بہت خوش دکھائی دیتے ہیں مگر میں سمجھتاہوں کہ انہیں اس بیان سے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے انہیں ایک نظر اپنے خلاف دائر کیس پر ڈال لینی چاہیے تاکہ ان کو معلوم ہوسکے کہ انہیں کیوں نکالا گیا تھا ،نواز شریف کو اس وقت خوش ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے جب واجد ضیاء یہ بتادیتے کہ شریف خاندان نے جے آئی ٹی کو یہ بتادیاہے کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیاہے اور فلاں فلاں پراپرٹی کی یہ رسیدیں ہیں اور یہ شواہد ہیںمگر ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ شریف خاندان کی جے آئی ٹی میں پیشیاں سیاسی مصلحتوں یا پھرعوام کی ہمدریوں حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں رہی ہیں ناکہ یہ کسی پیشی میں اپنے خلاف بنائے گئے کیسوں کے خلاف کوئی ثبوت لاسکے ہیں، اور ابھی اپریل میں ہی امید کی جارہی ہے کہ نتیجہ نکلنے والا ہے کہ اس ملک کے وسائل لوٹ کر اور غریبوں کی جھگیاں جلاکر اپنے محلات بنانے والوں کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ نواز شریف اور اس کے حواریوں نے پہلے پہل تو عدلیہ پر حملے کیئے تاکہ ان کے خلاف لگے کیسوں کا رخ بدل سکے اور معاملہ توہین عدالت میں تبدیل ہوجائے اس کے ساتھ ساتھ فوج پر تنقید کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ ہم یہ سب کچھ جمہوریت کی مظبوطی کے لیے کررہے ہیں یہ تاثر دیا گیا کہ گویا کہ فوج جمہوریت کے خلاف ہے، پاک فوج ہماری ملکی سرحدوں کی محافظ ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسی فوج کی بدولت آج ہم اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں پاکستان کو جہاں اندرونی خطرات درپیش ہیں وہاں اس ملک کو بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے اور یہ فوج ہی ہے جو ہمیں ان مشکلات سے دور رکھتے ہوئے خود اپنے سینے پر گولیاں کھارہی ہے لہذا پاک فوج کو بھی ان لوگوں نے اپنے زاتی اور جھوٹی افواہوں سے الجھا رکھاہے ،میں اس پر کوئی بات نہیں کرسکتا کہ مشرف جمہوریت کا دشمن تھا یا پھردوست تھامگر اب حال ہی میں ان لوگوںنے پرویز مشرف کو ٹارگٹ بنارکھاہے مطلب کہ مختلف اوقات پر مختلف ٹارگٹڈ حملے کیے جائیں تاکہ ان کے اصل کیس سے عوام کی توجہ بٹی رہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے کیس کے شروع کے دن سے ہی معاملے کوالجھانے کی کوشش کی ہے نوازشریف نے اپنے چند مداح سراہوں کو بھی اس کام پر لگادیا کہ میڈیا میں رہ کر عدلیہ اور فوج کے خلاف بدگمانیوں کو پھیلاتے رہیں ۔اگر نوازشریف اپنا ماضی نہیں بھولیں ہیں تو انہیں یہ یاد کرنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں وہ کس طرح سے عدلیہ اور فوج کے سب سے بڑے سپورٹربنے رہے اور یہ کہاجاتارہاکہ وہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر جمہوریت کی مظبوطی کے لیے کام کررہے ہیں اور آج جب اپنی حکومت ہے تو یہ ہی ادارے انہیں جمہوریت کے خلاف سازش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں غرض شریف خاندان نے اپنے ہر دور میں جمہوریت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے اور یہ ہی حال اس ملک کی دیگر جماعتوں کا بھی رہاہے جس میں پیپلزپارٹی سرفہرست ہے۔
اس کے علاوہ قوم کو یہ بھی بتاجائے کہ وزیراعظم کو ان حالات میں جب ان کے لیڈر کے خلاف فیصلہ آنے کو ہے ایسے میں ان کا چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کا کیا تک بنتاہے ؟ بتایا جائے کہ نوازشریف کا پیسہ اس ملک کی عوام ،اداروں اور سا لمیت سے بڑھ کر ہے ؟ اگر شریف خاندان کو بچانا ہی ہے تو پھر ان تمام کیسز کے ثبوت کیوں نہیں فراہم کیے جاتے ؟ مریم نواز کی جانب سے جے آئی ٹی میں 22دستاویزات جمع کروائی گئی جس میں ایک بھی رسید نہیں تھی اور ساری کی ساری جعلی نکلی ،کیاوزیراعظم شریف فیملی کی جانب سے معافی مانگنے گئے تھے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے لندن کے چار فلیٹس 12 آف شور کمپنیوں کو بھول جائیں اور لاہور میں موجود چار کیسزجبکہ نیب راولپنڈی میں موجود نیب کے پاس لگے دو کیسز ختم کرادیں اور اس کے بعدتمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے نوازشریف پر ثانی قائداعظم کا اضافی نوٹ بھی لگادیا جائے ۔حیرت ہے کہ آخرقوم کو یہ بتایاکیوں نہیں جاتا کہ کہ آج جو ملک 84 ارب ڈالر کا مقروض ہے وہ پیسہ کہاں خرچ ہواآئی ایم ایف سے ملنے والا اربوں کا قرضہ کہاں خرچ ہورہاہے بتایا جائے کہ تمام پیسہ کون اداکریگا ،کیایہ قرض وہ لوگ اداکرینگے جن کی جھونپڑیوں کا بل پانچ پانچ لاکھ لگاکربھیجا جارہاہے یاپھر یہ قرضہ وہ ماں اتاریگی جو دو وقت کا کھانا میسر نہ ہونے پر بچوں سمیت خودکشی کر لیتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ ریاستی دہشت گردہیں جنھیں کسی بھی حال میں معافی نہیں ملنی چاہیے ملک سے لوٹے گئے ایک ایک روپے کا حساب لینا چاہیے اور ان کے وزیروں کی تجوریوں اور بینک اکائونٹس کو کھولا جائے جس میں آئی آیف سے لیاگیا قرضہ ٹھونس ٹھونس کا بھراگیاہے ۔ میں اپنے پڑھنے والوں سے یہ درخواست کرنا چاہونگا کہ وہ اس ملک کی اہمیت کوسمجھے اور اپنے ووٹ کے زریعے ایسے لوگو ں کو ایوانوں میں نہ لیکر جائیں جن کی سیاست کامقصد ہی لوٹ مار ہے ،نوازشریف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں تو انہیں اس کے لیے عدالتوں پر حملے کرنے کی بجائے انہیں اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرناہونگے اسی صورت میں انہیں ریلیف مل سکتاہے وگرنہ انہوںنے جس اندازمیں اس ملک کی قوم اورقومی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کیاہے اس کی سزاتو انہیں مل کر ہی رہے گی۔
Haleem Adil Sheikh
تحریر: حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل 021.34302441,42 ۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com