تحریر : محمد نورالہدیٰ پانامہ کیس پر حتمی فیصلہ جو بھی آئے ، یہ بہرحال طے ہے کہ آئندہ حکومت پھر ن لیگ کی ہی بنے گی اور الیکشن 2018ء میں شیر پوری قوت کے ساتھ دھاڑے گا۔ ذرائع ابلاغ میں اور عوامی سطح پر بھی رائے عامہ جس طرح نواز لیگ کے حق میں منظم ہورہی ہے ، اس کا احساس اپوزیشن جماعتوں کو یقینا ہوچکا ہوگا مگر شاید وہ جان بوجھ کر اس حقیقت سے چشم پوشی اختیار کر رہی ہیں کہ ن لیگ اپنے قائد کے ٹرائل کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔
گذشتہ دنوں ایک ریڑھی والے نے مجھ سے استفسار کیا ”بائو جی ، کیا حکومت ختم ہورہی ہے؟” جواباً میں نے اپنی ناقص رائے کا اظہار کیا۔ پھر پوچھا ، تم آئندہ الیکشن میں کسے ووٹ دو گے؟ کہنے لگا کہ میں تو شروع سے ہی نواز شریف کا سپورٹر ہوں ، آئندہ بھی اسے ہی ووٹ دوں گا۔ میں حیران ہوا ، کہا کہ شریف فیملی کے بارے میں اتنا کچھ جان لینے کے بعد بھی ؟ تو ریڑھی والے نے جواب دیا ”ہمیں کیا جی ، وہ ملک میں کام تو کرکے دکھا رہا ہے نا ، ویسے بھی ہم نے اپنا کمانا اور اپنا کھانا ہے ، ملک ترقی کرے گا تو ہماری بھی روزی روٹی چلتی رہے گی”۔
میری ایک 70 سالہ کاروباری سے اسی معاملے پر گفتگو ہوئی ۔ اس نے بھی نواز حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ کہنے لگا کہ ، کئی حکومتیں دیکھی ہیں مگر نواز شریف سے زیادہ تجربہ کار اور ویژن والا کسی کو نہیں پایا ، اس شخص کے پاس ملکی ترقی کی چابی ہے ۔ میں نے ان سے بھی یہی پوچھا کہ ، اتنے راز کھلنے کے بعد بھی وہ ن لیگ کے حمایتی ہیں ؟ جواب ملا ، ” کھاتا ہے تو ، لگاتا بھی تو ہے نا۔ اس کے ترقیاتی منصوبے دکھائی دے رہے ہیں ، ہمیں اور کیا چاہئے” ۔ یہی نہیں ، میں نے ن لیگ پر آنے والے ممکنہ بحران کے تناظر میں کتنے ہی لوگوں کو آپس میں گفتگو کرتے سنا ، تو واضح ہوا کہ ابھی بھی معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ نواز لیگ کا حامی ہے ۔ مذکورہ دو مثالوں کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں ، مگر جگہ کی تنگی کی وجہ سے شیئر کرنے سے قاصر ہوں ، البتہ یہاں سے ہمیں قوم کی اجتماعی شعوری حالت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ہم سوشل میڈیا پر دیکھیں یا روڈ ٹاک شوز میں عوامی آراء ، ہمیں ن لیگ کا پلڑا ہی بھاری دکھائی دیتا ہے … آپ تجزیہ کاروں اور دانشوروں سے غیر جانبدارانہ رائے لیں تو وہ بھی یہی بتائیں گے کہ اول تو انہیں نواز شریف جاتا دکھائی نہیں دے رہا ، اگر اسے جانا پڑ بھی گیا تو وہ یا اس کی پارٹی دوبارہ اکثریت کے ساتھ پھر حکومت میں آئے گی ۔ جو لوگ آج اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں ، کل وہی لوگ نواز شریف کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے ، کہ یہی ہماری قوم کا مزاج بھی ہے ۔
ویسے بھی ان چار سالوں میں قوم نے سیاست پر بہت سے اتار چڑھائو دیکھے ہیں ۔ ہم نے تبدیلی کے کھوکھلے نعرے بھی سنے مگر پختونخواہ میں واضح تبدیلی نہ دیکھ سکے … ہم نے انصاف کے حصول کیلئے قبر کھودنے اور کفن لہرانے والے بھی دیکھے ، مگر بہروپیا پایا … ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک آکسفورڈ کاپڑھا ہوا 28 سالہ نوجوان ، جسے اردو بھی ٹھیک سے بولنی نہیں آتی تھی ، پاکستان میں صرف ہم پر حکومت کرنے کا خواب لئے آباد ہوا … ہم نے ایک ایسے شخص کے بارے میں بھی سنا جس کے صادق اور امین ہونے کی گواہی ملک کے اعلیٰ ترین ادارے نے بھری بزم میں دی ، لیکن اس شخص یا اس کی پارٹی کے حق میں ہماری زبانیں گنگ ہیں ۔
تحریک انصاف اگرچہ سیاسی تناظر میں ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے ، اس نے ساڑھے چار سالوں میں سب کو خوب ٹف ٹائم دیا ہے ۔ موجودہ سیاسی حالات کا زیادہ تر ”کریڈٹ” بلاشبہ تحریک انصاف کو ہی جاتا ہے ، لیکن جس طرح گذشتہ کچھ عرصہ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر اس نے اپنا وقار کھویا ہے ، مستقبل میں یہ اس کا بہت نقصان اٹھانے والی ہے ۔ کھلاڑی اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں مگر جب نتائج آئیں گے تو ان کے پاس سوائے واویلا کرنے کے اور کچھ نہیں ہوگا … دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی سیاسی میدان میں واپس جگہ بنانے کیلئے خوب ہاتھ پیر مار رہی ہے ، لیکن سندھ میں ڈیلیور نہ کرسکنے اور اہم لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ابھی عوام میں دوبارہ آنے کیلئے خاصی محنت درکار ہے … نواز لیگ کے وزراء بھی اپنی پارٹی کومنجدھار سے نکالنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے بڑھ کر چمچہ گیری کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ لیکن اخلاقیات کا مظاہرہ کسی بھی جانب سے نہیں کیا جارہا ۔ ہر پارٹی کے لوگ اپنے اپنے قائد کے دفاع میں گفتار کے گلو بٹ بنے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سیاسی کشمکش اور آپسی چپقلس نے لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے ۔ ان حالات میں آپ لوگوں کی آراء لیں تو بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے بے نقاب ہونے کے باوجود وہ انہی کے حق میں فیصلہ سناتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ میاں صاحبان نے بہرحال سسٹم کیلئے خود کو ناگزیر ثابت کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بھی متبادل کے طو رپر کسی اور کو قبول کرنا فی الوقت مشکل ہوگا … امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت بھی میاں صاحبان ہی عالمی قوتوں سے زیادہ قریب ہیں ۔ مختلف ممالک کے تعاون سے پاکستان میں جو ترقیاتی اور معاشی منصوبے چل رہے ہیں ، میاں صاحب کے چلے جانے سے وہ تمام منصوبے رک جائیں گے ، کیونکہ نئی حکومت کو دوست ممالک پر اعتماد بنانے میں وقت درکار ہوگا ۔ جتنی دیر میں نئی حکومت اعتماد بنانے کے قابل ہوگی ، تب تک اس کے 5 سال پورے ہونے والے ہوں گے اور اس کے بعد اگلا الیکشن … اور پھر وہی یا کوئی نئی حکومت ہوگی ۔ یوں ملک سے ”ترقی” کا جو عمل رکے گا ، اسے بحال ہونے میں خاصا وقت لگے گا … لہذا بظاہر تو آئندہ بھی حکومت ن لیگ کی نظر آرہی ہے ، تاہم اس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہم ہوگا ۔
میں شریف فیملی کا دفاع نہیں کررہا ، بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہوں ۔ مجھے ن لیگ سے کوئی ہمدردی بھی نہیں ہے ، مگر ہماری شعوری کیفیت کچھ یہی ہے کہ ہم ظاہری چمک دمک کے عادی ہیں ۔ اسی لئے ووٹر صرف ملک میں ”کام” ہوتے دیکھ کر ہی مطمئن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر وہ نواز شریف کو ہی اپنا لیڈر مانتا ہے ۔ آپ دیکھ لیجئے گا ، پانامہ کیس کا حتمی فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا خلاف ، وہ فوری طور پر قوم سے خطاب کریں گے اور حریفوں پر تابڑ توڑ حملے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کی ”خدمات” گنواتے ہوئے بیچارہ بن کر دکھائیں گے ۔ یوں عوام کے دلوں میں ان کیلئے ہمدردی بڑھے گی اور الیکشن میں وہ ان پر لگے ”مبینہ الزامات” بھول کر ”عام معافی” کا اعلان کرتے ہوئے ان کی ”مظلومیت” پر مہر ثبت کریں گے … لہذا یہ کہنا غلط نہیں کہ پانامہ فیصلہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے حق میں سازگار ثابت ہوگا اور سنجیدہ حلقوں کا انتخاب ایک مرتبہ پھر نواز لیگ ہی ہوگی ۔
البتہ یہ امر توجہ طلب ہے کہ پانامہ لسٹ میں اگر 220 پاکستانی لوگوں کے نام شامل ہیں اور ان میں سے صرف آلِ شریف کا احتساب ہورہا ہے تو ایسے میں نواز شریف کا اسے احتساب کی بجائے استحصال کہنا درست ہی معلوم ہوتا ہے … اب تک صرف جماعت اسلامی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ باقی ملوث افراد کو بھی قانون کے دائرے میں لانے کی جدوجہد کرے گی ، وگرنہ باقی پارٹیوں کا احتساب صرف نواز شریف اینڈ فیملی سے شروع ہوکر انہی پر ختم ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ملکی دولت واپس لانے سے نہیں ، ”کرسی” حاصل کرنے سے غرض ہے … وگرنہ عوام سے انہیں کوئی سروکار نہیں … بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ آف شور سکینڈل میں ملوث تمام افراد کو سپریم کورٹ از خود نوٹس کے ذریعے احتساب کے کٹہرے میں لائے تاکہ استحصال کی بجائے حقیقی احتساب کا میگا پراجیکٹ شروع ہو اور وطن عزیز اک نئے دور میں داخل ہو سکے۔