اسلام آباد (جیوڈیسک) پانامہ کا ہنگامہ ایک بار پھر شروع ہونے کو تیار ہے۔ نواز شریف قانونی جنگ کیلئے میدان میں آ گئے۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس پر نظر ثانی کیلئے تین درخواستیں دائر کر دیں۔
سابق وزیر اعظم کی طرف سے دائر درخواستوں میں متعدد قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 28 جولائی کے فیصلے میں بہت سے سقم موجود ہیں، انکم ٹیکس قانون کے مطابق وصول نہ کی گئی تنخواہ اثاثہ نہیں ہوتا اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت صرف وہی اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں جو امیدوار کے قبضے میں ہوں، کاغذات نامزدگی میں غیروصول شدہ تنخواہ پر امیدوار کو آرٹیکل باسٹھ، سیکشن 99 ایف کے تحت نااہل نہیں کیا جا سکتا۔
درخواستوں میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم کی نااہلی کے لئے درخواست گزار نے ایف زیڈ ای کمپنی سے متعلق نہ تو درخواست دی اور نہ کوئی استدعا کی، سپریم کورٹ نے ایف زیڈ ای کمپنی پر نااہلی سے پہلے کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا یوں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ بظاہر غلط ریکارڈ پر دیا۔
نواز شریف نے نااہلی کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا بھی کر دی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 28 جولائی کا فیصلہ پانچ ججز نے جاری کیا حالانکہ پانچ رکنی بینچ کو فیصلے کا اختیار نہیں تھا۔ نظرثانی درخواست کے التواء تک 28 جولائی کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔
سابق وزیر اعظم کی دائر درخواست میں نیب ریفرنسز پر نگران جج کی تعناتی پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریفرنسز پر نگران جج مقرر کرنا آئین کے آرٹیکل 75 اور 125 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ نگران جج کی تعیناتی آرٹیکل چار، دس اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں جمع کرائی گئی درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی قوانین اور فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کے منافی ہے جبکہ اپیل کا حق نہ دینا بھی آرٹیکل 10 اے کی خلاف وزری ہے۔