میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

Kashmir

Kashmir

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
جدہ کی وہ رات کبھی نہیں بھولوں گا میری کرائسلر نیو یارکر کی ڈرائیور سیٹ پر بیٹھا میرا دوست نور جرال میں اسے عزیزیہ کی سڑکوں پر لئے پھرتا رہا صیدلیہ نہدی سے دائیں مڑا چودھری اسلم کے مہران ہوٹل ،فائین کی دکان کبابش اور زہرہ سے آگے شاہین ہوٹل کے پاس سے دائیں مڑ گیا ارشد خان کے پرانے گھر کے پاس یہ وہی ارشد خان ہے جس نے نواز شریف کے پچھلے دور میں عروج پایا اور نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین بھی بنا اس کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ اس نے موجودہ وزیر داخلہ سے کسی بات پر اختلاف کیا اور اس اختلاف کی آواز دور دور تک سنی گئی وجہ مجھے علم نہیں اور اس کے پسر عامر ارشد خان کی وجہ ء شہرت اصلی کپتان سے بھی ضرور پوچھی جائے کہ وہ جدہ کے معروف مسلم لیگی اور میرے سامنے کیوں بلبلایا تھا؟(سچے کپتان رویا نہیں کرتے)۔ نور جرال سے کہا یار وہ گیت سنائو جو پہاڑی طرز میں ایک خاتون نے گایا تھا میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن رات کا دو بجے ہوں امریکن کرائسلر کی سرخ صوفہ نما سیٹ پر نور جرال نے ٹانگیں اوپر کر کے گٹھ ون مار لیا اور ایک کان پر ہاتھ رکھ کر شروع ہو گیا میری آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑیاں تھیں اور میں کشمیر کو یاد کر رہا تھا ان بیٹیوں کو سوچا جو بھارتی جبر اور استبداد کا نشانہ بنی تھیں۔ میں ان لوگوں میں نہیں تھا جو کشمیر کی بچیوں کی داستانیں کچھ اس انداز سے سناتے ہیں کہ قصہ ء شہوت بن جاتا ہے اور آخر میں چندہ چندہ کرتے ہیں۔

لوگ جانتے ہیں کہ کشمیر کے لئے بندہ ء ناچیز کہاں کہاں نہیں گیا ہم کوئی ق لیگی نہ تھے جو کشمیر کمیٹی جدہ کے رکن بن کر گریڈ سترہ اٹھارہ کے نالئقوں کی کاسہ لیسی کرتے۔اپنے من میں کھو کر کبھی امام حرم سے ملے کبھی گورنروں سے اور سعودی کمیونٹی کو متحرک کیا پاکستانیوں کو جوڑا۔کشمیر نوے کی دہائی میں جہاں کھڑا تھا اب بھی وہیں ہیں اور یہ جب میں اب بھی وہاں کی بات کرتا ہوں تو اس وقت آزادی ء کشمیر کی جد و جہد بہت اآگے جا چکی تھی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ایک بار عبدلمجید ڈار مدینہ منورہ میں آستانہ ء جہانگیریہ پر ہمارے مہمان بنے میں ان کے ساتھ گیا ان کی خواہش تھی کہ میں سو پور کے اس مجاہد کا ساتھ دون وہ شاپنگ کرنا چاہتے تھے میں اٹھا چل دیا عصر کی نماز ہم نے باب عبدالسلام کے پاس پڑھی پھر میں نے انہیں بازار میں چھوڑ دیا اسلام آباد ہوٹل کے عبدالقیوم قریشی ندیم قریشی کے پاس آن بیٹھا اسلام آباد ہوٹل اب تو باہر سامنے مین روڈ پر آ گیا ہے اور اب ایک صاحب کے پاس ہے جو سعودی ہو گئے ہیں پاکستانیوں کا سب سے پہلا کام پاکستانی کو کھا جانا ہوتا ہے وہ جیسے ہی سعودی بنے انہوں نے اپنی کفالت میں ہوٹل پر قبضہ کر لیا ندیم و قیوم کہوٹہ میں موجود ہیں اور شنید ہے اس شخص کا بیٹا گزشتہ ماہ حرم میں تراویح پڑھا رہا ہے اللہ کے کام اس کی حکمتیں وہی جانیں۔یہ صاحب جنہوں نے ہوٹل پر قبضہ کیا میاں طفیل مرحوم جناب خلیل حامدی معروف سکالر ڈاکٹر مرتضی ملک میری کاپریس میں بیٹھے مجھ عزت بخشنے طباق مدینہ جا رہے تھے تو میاں صاحب نے قابض سے کہا جناب اسلام آباد کی مسجد کا کام شروع کرائیں جو آپ نے میرے ذریعے ضیاء الحق سے لی تھی۔میرے دل میں اسی وقت کھٹکا کہ جو شخص مساجد کے پلاٹ اس طریقے سے حاصل کرتا ہے وہ ہوٹل کہاں چھوڑے گا اور وہی ہوا۔عبدالمجید ڈار بازار سے تھیلا بھر کر واپس لائے۔

گھر پہنچنے پر میں نے سوچا دیکھتا ہوں مجاہد کیا خرید کے لایا ہے ہماری مجلس کے کمرے کے ایک کونے پر تھیلے کو ٹٹولا تو چار جنازے کی چادریں چند تسبیحات اور تھوڑی کھجوریں ۔میں نے پوچھا حضور یہ کیا فرمایا ہمارے ہاں خاص طور پر سو پور میں لوگ جب بھارتی جبر کے نتیجے میں شہید ہوتے ہیں تو ان کے جنازوں پر مدینے کی چادر ہو تو اسے بڑی سوغات سمجھتے ہیں۔بعد میں ڈار صاحب کی خبر ملی حضب المجاہدین میں اختلافات کی نظر ہو گئے پتہ نہیں مدینہ منورہ کی یہ چادر ان کے جنازے پر پڑی یا نہیں۔

نوے کی دہائی گزر گئی بیچ میں کشمیر کی جد وجہد آزادی پر برا وقت آیا۔کہتے ہیں ان کی لسٹیں آج کے مرد حر اعتزاز احسن نے دیں اللہ ہی جانے لیکن سچ تو یہ ہے کہ برہان وانی کی شہادت نے اس سوئی ہوئی تحریک کو مہمیز دی اور اب بھارت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ایک بار سردیوں کے دنوں میں جدہ سے آیا مرکزی سیکریٹرٹ میں پتہ چلا کشمیری وفد آیا ہوا ہے جاوید ہاشمی اس وقت پی ٹی آئی میں تھے۔جناب میر واعط مولوی عباس انصاری اور بڑے نامی گرامی لوگ تھے۔کسی وجہ سے وقفہ ہوا تو ایک صاحب شائد سجاد لون تھے مجھے کہنے لگے ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ ہے سوچا آپ لوگوں سے بھی مل لیا جائے ۔میں نے بھی جواب جھڑ دیا حضور ویسے سچ پوچھیں ہم بھی آپ کو وہاں کی ق لیگ سمجھتے ہیں اصل لیڈر تو علی گیلانی ہیں۔موصوف کی طبیعت صاف دکھ رہی تھی۔

غصبوں کے جبر کا شکار کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔اب اس جد وجہد کو کمزور کرنے لئے ایک نیا شوشہ مکمل آزادی ء کشمیر کا ہے اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اتنی بات یاد رکھئے اقاوم متحدہ کی قراردادوں سے واپس پلٹنا سب کے لئے نقصان دہ ہو گا۔وادی کشمیر جنت نظیر اگر تھر جیسی بھی ہوتی تو اسلام اور دو قومی نظریہ رکھنے والے لوگ سچے پاکستانی اس کے لئے اتنا ہی تڑپتے جتنا اب تڑپ رہے ہیں۔قومیں اگر زبان کے نام پر بنتیں تو دنیا میں ایک کروڑ سے زائد زبانیں ہیں ہر بیس کلو میٹر پر زبان بدلتی ہے۔دو روز پہلے سینیٹر عثمان کاڑ اور شاہ زین بگٹی ایک ٹاک شو میں مکالمہ ہو رہا تھا۔بات پشتونخواہ کو کے پی کے کہنے پر ہو رہی تھی جناب کاکڑ کو کے پی کے کہنا بھی اچھا نہیں لگا تھا تپ چڑھ گئی اور سچ پوچھیں یہ جو نواز شریف در بدر ہوئے ہیں اس میں ہزارہ کے ان شہداء کے ورثاء کی بد دعائیں بھی ہیں جو تحریک صوبہ ہزارہ میں مارے گئے۔ایک ایسا صوبہ رواداری سے آگے بڑھ رہا تھا اس میں زبان کا زہر گھول دیا گیا میں چیخا کہ مجھے پشتو کا ایک لفظ نہیں آتا اور مجھے پشتونخوا کیوں بنا ڈالا۔مجھے اس قومی دھارے سے کیوں نکالا؟ہزارہ کے لوگ آج اس صوبے میں اجنبی بن کے رہ گئے ہیں اٹک کے پار ان سے اچھوتوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ہم ان ظلم کے ضابطوں کے خلاف نکلیں تو گولیاں ہمارا استقبال کریں اور آپ نواز شریف تیسری باری کے لئے وطن دشمنوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے۔آپ کو اللہ اس سے زیادہ پریشان کرے گا۔پشتونخواہ خوامخوا ہمارے نام کر دیا گیا۔زرداری اور نواز شریف کا یہ جرم تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔

کشمیر پر ظلم بھارتی کر رہے ہیں اور ہزارہ پر ظلم نواز شریف اور زرداری نے کیا۔نور جرال کہتے رہے کہ ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن۔شناختی کارڈ جب بنوا رہا تھا تو فارم پے لکھا تھا عارضی پتہ میں نے پنڈی کا لکھوایا اور مستقل بھی پنڈی کا۔میرے گھر میرے زمینیں ہریپور میں ہیں لیکن میں نے پشتونخوا کا باشندہ لکھوانا گوارا نہیں کیا اللہ نے چاہا تو ہزارہ اس لسانی کلنک کے داغ سے آزاد ہو گا تو شناختی کارڈ کے پتے بھی تبدیل کر لیں گے۔نور جرال تو امریکن نیو یارکر میں بھیٹھا گاتے گاتے نیو یارک چلا گیا ہے شائد وہ اسی لئے گنگنا رہا تھا میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن وہ کتاب کی تقریب میں گیا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔

پاکستان بچانا ہے تو اکائیوں کو ان کا حق دو سترہ سیٹیں بلوچستان کی ہوں گی تو ہمارے لیڈران کو کتے نے کاٹا ہے وہاں جا ئیں بلوچستان کو رقبے کو مدنظر رکھیں انہیں سترہ کی بجائے اکیاون سیٹیں دیں سینیٹ کو مضبوط کریں پنجاب کے تین صوبے بنائیں۔ہزارہ کو الگ کر دیں اگر یہ چھوٹا ہے تو پوٹھوہزارہ صوبہ بن سکتا ہے فاٹا کے انضمام کے بعد تو ہزارہ اقلیت بن جائے گا لوگ تو قیدی تخت لہور کے کہلاتے ہیں یہاں پشور کے قیدی رہتے ہیں۔لوگوں پر جبر بند کریں زبردستی لسانیت نہ تھوپیں اگر پشتونخوا ہے تو سرائیستان کیوں نہیں؟کشمیر مقبوضہ کو تو لوگ آزاد کرا ہی لیں گے یہ ہمارے داخلی مجبوروں پر ظلم کون بند کرائے گا۔ پاکستان ہماری آن بان شان سب کچھ ہے خصوصا ہزارہ نہ ہوتا تو پختونستان بن گیا تھا اسے تو حق دیں۔

ہم ستم شعاروں کشمیر کو آزاد کرانے کے نغمے گاتے رہیں گے۔چاہے وہ خارجی ہوں یا داخلی
میرے وطن تیر ی جنت میں آئیں گے اک دن ستم شعار سے سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری