تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 3 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے ہنگامہ خیز اجلاس میں الیکشن اصلاحات بِل 2017ء اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود واضح اکثریت سے منظور ہوا ۔ صدرِمملکت سیّد ممنون حسین تو جیسے اِس بِل پر دستخط کرنے کے لیے پَر تولے بیٹھے تھے۔ جوں ہی یہ بِل ایوانِ صدر پہنچا، صدرِ مملکت نے اُس پر ”کھٹاک” سے دستخط کرکے اُسے آئین کا حصّہ بنا دیا ۔ ویسے بھی جب اِس قسم کے ”بِل شِل” آتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں کیونکہ ”ویہلے” سیّد ممنون حسین کو مصروفیت کا بہانہ ہاتھ آ جاتاہے۔اِس بِل کی منظوری کے بعد میاں نوازشریف کی پارٹی صدارت کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔ پارلیمنٹ میں اِس بِل کے خلاف سب سے زیادہ ”رَولا” شیخ رشید نے ڈالا۔ اُنہوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر کہاکہ نوازلیگ نے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیاہے۔ اب 120 دِن کی اُلٹی گنتی شروع ہو گئی۔ ایک تو اِس لال حویلی والے کو ”ترجمان” بننے کا شوق ہی بہت ہے۔ کبھی وہ عدلیہ کے ترجمان بن جاتے ہیں تو کبھی فوج کے اور اگر کوئی نہ ملے تو پھر ”طوطافال” نکال بیٹھتے ہیں۔ اِس بِل کی منظوری پر شیخ رشید کے”چیں بچیں” ہونے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ اُنہیں تو ہمیشہ آمریت ہی راس آتی ہے۔ آمر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر بڑھکیں لگانے والے شیخ رشید یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ الیکشن اصلاحات بِل میں سے جِس شِق کو نکالا گیا ہے ،وہ ”آمروں” کا ہی تحفہ تھی، اِسی لیے شیخ رشید کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں مارشل لاء کے بانی ایوب خاں نے سیاست دانوں پر ” ایبڈو” لگائی تاکہ وہ عملی سیاست میں حصّہ نہ لے سکیں۔ اُنہوں نے یہ پابندی 1962ء میں لگائی۔ اِس پابندی کو ذوالفقار علی بھٹو کی سول حکومت نے 1975ء میں ختم کیا اور 2002ء تک یہی صورتِ حال برقرار رہی۔ پھر آمر پرویزمشرف کی حکومت آئی اور اُس نے 2002ء میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کے تحت ایک دفعہ پھر یہ پابندی لگادی تاکہ بینظیربھٹو اور میاں نوازشریف کو سیاسی سرگرمیوں سے باہر رکھا جاسکے۔ اب 2017ء میں اِسی آرڈیننس کو ختم کیا گیا ہے۔ 1973ء کا آئین وہ دستاویز ہے جس کو تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا البتہ جو بھی آمر آیا ،اُس نے اِس آئین کو موم کی ناک کی طرح جس طرف جی چاہا ،موڑ دیا اور ہماری عدلیہ نے بھی ”’نظریۂ ضرورت” گھڑ کے اُسے جائز قرار دے دیا۔ حیرت شیخ رشید یا تحریکِ انصاف کے واویلے پر نہیں بلکہ پیپلزپارٹی پر ہے کہ اُس نے بھی اِس آرڈیننس کے خاتمے پر شور مچایا۔
کیا یہ ”بغضِ معاویہ” ہے جس کے تحت پیپلزپارٹی بھی اِس شور شرابے میں برابر کی شریک ہوئی؟۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ 1973ء کے متفقہ آئین کا کریڈٹ لیا ہے۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے تین دفعہ بھٹو خاندان کی قبروں کے طفیل حقِ حکمرانی حاصل کیا۔ آج بھی پیپلزپارٹی کا مقبول ترین نعرہ یہ ہے کہ ”کل بھی بھٹو زندہ تھا ،آج بھی بھٹو زندہ ہے” لیکن اب یہ نعرہ اپنی افادیت کھو چکاکیونکہ اگر آج بھٹو زندہ ہوتا تو اپنے ہاتھوں سے نکالی گئی اِس شِق کو کبھی آئین کا حصّہ نہ بننے دیتا۔ پیپلزپارٹی کے نامی گرای رہنما اعتزاز احسن نے سینٹ میں یہ قرارداد پیش کی کہ اِس شِق کو الیکشن اصلاحات 2017ء بِل کا حصّہ رہنے دیا جائے لیکن یہ 37 کے مقابلے میں 38 ووٹوں سے مسترد ہو گئی اور سینٹ نے یہ بِل منظور کر دیا۔ قائدِِحزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ یہ شِق محض میاں نوازشریف کی پارٹی صدارت کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر نکالی گئی ہے۔ چلیں مان لیا کہ نوازلیگ نے اپنی عددی برتری کے زور پر اِس شِق کا خاتمہ کرکے غلط کام کیا، سوال مگر یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اِس شِق کا خاتمہ کرکے غلط کام کیا تھا؟۔ اگر سیّدخورشید شاہ یہ مان لیں کہ ”’ہاں بھٹو نے غلط کیا” تو پھر قوم بھی نواز لیگ کی اِس ”زبردستی” کو تسلیم کر لے گی۔
الیکشن اصلاحات بِل کی منظوری کے فوراََ بعد کنونشن سنٹر اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن)کا کنونشن منعقد ہوا جس میں جمِ غفیر نے نعروں اور تالیوں کی گونج میں میاں نوازشریف کو 66 دنوں بعد ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) کا چار سالوں کے لیے صدر منتخب کر لیااور عدلیہ سے نااہل میاں نوازشریف نے نوازلیگ کی قیادت سنبھال لی۔ قیادت سنبھالنے کے بعد میاں صاحب نے اپنی تقریر میں ایک دفعہ پھر پاناما اور اقامہ کا ذکر کیا جس پر شیم شیم کے نعرے گونجتے رہے۔ میاں صاحب نے کہا ”حاکمیت عوام کی امانت ہے ،اِس میں خیانت بند کی جائے۔ہم نے سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈکٹیٹرز کی آئین شکنی کو جائز قرار دے کر وفاداری کے حلف اُٹھائے گئے۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والے صادق بھی رہے اور امین بھی ۔جب پاناما میں کچھ نہیں ملا تو اقامہ پر وزیرِاعظم کو نکال دیا جاتا ہے۔ قوم سے صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی کہ ہاں ! نوازشریف نے کوئی کرپشن نہیں کی ،ایک پیسہ بھی ناجائز طریقے سے نہیں کمایا۔ ہمارے پاس اُس کو ڈِس کواکیفائی کرنے کا کوئی چارہ نہیں۔ بس اقامہ ہے جس پر اُس کو نکال رہے ہیں”۔ مسلم لیگ نواز کی قیادت سنبھالنے سے صرف ایک دِن پہلے میاں صاحب کی احتساب عدالت میں پیشی تھی ،جس پر بہت ہی عجیب وغریب صورتِ حال سامنے آئی۔ ہوا یوں کہ اچانک ایک بریگیڈئیر کی سربراہی میں رینجرز کے 300 جوانوں نے عدالت کا محاصرہ کر لیااوراحتساب عدالت کے احاطے میں موجود تمام لوگوں کو باہر نکال کر احاطے کے بیرونی گیٹ کو تالا لگا دیا گیا۔ صرف میاں نوازشریف کی گاڑی کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور وہاں پر موجود وفاقی وزراء ،وکلاء ،صحافیوں اور مسلم لیگی رہنماؤں کو اندر داخل ہونے سے روک دیا ۔چیف کمیشنر اسلام آباد نے صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے وفاقی وزیرِداخلہ احسن اقبال کو اطلاع دی جس پر احسن اقبال بھی احتساب عدالت پہنچ گئے۔
جب وہ احتساب عدالت کے بیرونی گیٹ پر پہنچے تو وہاں ڈیوٹی پر موجود رینجرز کے سپاہی نے اُنہیں بھی اندر جانے سے روک دیا۔ یہ ایسی صورتِ حال تھی جس پر دنیا بھر میں نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہوئی بلکہ یہ بھی پتہ چل گیا کہ اصل حکمرانی کس کے پاس ہے۔ نواز مخالف کچھ تجزیہ نگار معاملے کی مختلف تصویر دکھا کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو احتساب عدالت کے جج نے اور نہ ہی رجسٹرار نے میڈیا یا وزراء کے داخلے پر پابندی لگائی۔
میڈیا کے 18 اور مسلم لیگ کے 10 وزراء اور اراکین کی فہرست رجسٹرار آفس میں پہنچا دی گئی تھی جسے منظور بھی کر لیا گیا لیکن رینجرز نے عدالت کا محاصرہ کرکے کسی کو بھی اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ جب غصّے سے لال پیلے ہوتے وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے رینجرز کے کمانڈر کو بلانے کے لیے کہا تو وہ روپوش ہو گئے۔ کافی انتظار کے بعد احسن اقبال نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میرے ماتحت ادارے کہیں اور سے احکامات لیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ کٹھ پُتلی بننے سے بہتر ہے کہ مستعفی ہو جاؤں۔ یہاں ایک قانون اور ایک حکومت ہوگی ، ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں چل سکتیں۔ بند کمروں میں ٹرائل مارشل لاء میں ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بنانا ری پبلک نہیں بلکہ جمہوری ملک ہے۔ میں اِس صورتِ حال کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا”۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ سول انکوائری مکمل ہوگئی۔ سویلین اداروںمیں سے کسی نے بھی رینجرز کو نہیں بلایا۔ اب باقی تو صرف فوج ہی رہ جاتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر پاکستانی جمہوریت پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔