ایک سرمایہ دار حکمران

PIA

PIA

یہ پیپلز یونٹی آف پی آئی اے ایمپلائز ملتان کے افراد تھے سٹی ٹرمینل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں میں نے فخرالدین پیرزادہ، سید احمد محمود، رانا فرید، ارشد خوگانی، لئیق الر حمٰن چشتی، ندیم مرتضیٰ، جواد عمر کو ملک دشمن فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج دیکھا ہم ایک ایسے متروک نظام کے زیر تسلط ہیں جسے انقلاب اور تاریخ کے رستے میں ناکام رکاوٹ کے طور پر زندہ رکھا جارہا ہے سرمائے کی یلغار میں ایک ایسی ریاست میں جہاں سرمایہ دار حکمرانوں کی ناکام اور اپنے طبقہ کو نوازنے کی معاشی پالیسیوں کی بنا پر زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے ہیں ملکی معیشت کی تباہی کے کھیل نجکاری کو الفاظ کا خوشنما لبادہ اوڑھا کر عوام کو بے وقوف بنانے کی روش جاری ہے لوٹ مار کے وہ مواقع جو محض اپنے عزیز و اقارب کیلئے نجکاری کی شکل میں پیدا کیئے جارہے ہیں حب الوطنی کے قتل کے سوا کچھ نہیں ایک زردار کی عوامی حکومت نے قادر پور گیس فیلڈ کی ذلت کے بعد بھی 22 اداروں پر نجکاری کا کاری وار کرنے سے گریز نہ کیا ہم اسے ایک ایسا عمل کہہ سکتے ہیں جس سے سرمایہ داروں کی مخصوص شعبوں میں اجارہ داری بڑھتی ہے بنیادی اشیائے ضرورت کے نرخ عام صارف کی دسترس سے نکل جاتے ہیں۔

مصنوعی قلت کا بحران پیدا کیا جاتا ہے اور متعلقہ صنعتکار، سرمایہ دار کے منافعوں کو پر لگ جاتے ہیں اتفاق فائونڈری کے صنعت کار حکمران کے پہلے دور کی نجکاری کو عوام ابھی تک نہیں بھولے جب غربت کے شانوں پر گھی، سیمنٹ ،چینی کے نرخوں میں اضافوں کا بوجھ اٹھانا ناممکن ہو گیا تین روپے فی کلو ملنے والی چینی اب 56 روپے کلو میں بک رہی ہے شوگر مافیا نے مشرف دور میں مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کی جیبوں سے 40 ارب روپے ناجائز منافع کی مد میں نکالے نجکاری کے نام پر اب پھر ماضی کے موجودہ سرمایہ دار حکمران ایسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیںجو ریاست کو منافع کمانے والے شعبوں کی مستقل آمدنی سے محروم کر کے اُن کے بینک بیلنس میں لامحدود اضافہ کا باعث بنے گا زیر بحث یقیناً یہ موضوع ہے کہ بھٹو کے نیشنلائزیشن کے عمل کو ایک آمر کی کوکھ سے جنم لینے والا حکمران غلط قرار دیکر کیا اپنے پسندیدہ عناصر کی بدعنوانی کو فروغ نہیں دینا چاہتا نجکاری کے عمل سے اپنے ہی لوگوں کو نوازنا چاہتا ہے کیا مسلم کمرشل بنک ،حبیب بنک ،الائیڈ بنک ،شوگر ملز ،سیمنٹ فیکٹریز، کوکنگ آئل فیکٹریز، فرٹیلائیزر بنانے والی صنعتیں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن، کراچی پورٹ ٹرسٹ، کیا ماضی کی ان مذکورہ بالا نجکاری کی مثالوں کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے جن کا سالانہ منافع اُس رقم سے کئی گنا زیادہ تھا جتنی رقم میں یہ ادارے منظور نظر افراد کو شیر مادر سمجھ کر اونے پونے داموں میں بیچ دیئے گئے کیا اس سچ کی نفی کی جاسکتی ہے کہ پی ٹی سی ایل ،حبیب بنک جیسے اداروں کو ایک مخصوص اور منظور نظر طبقہ نے مفت میں ہتھیا لیا خریداروں کی فہرست میں ایسے منظور نظر افراد بھی تھے جو مالیاتی اداروں کی طرف سے نادہندہ ہونے کی بنا پر بلیک لسٹ ہوئے 50ارب روپے کی پاک سعودی فرٹیلائیزر کو سات ارب روپے میں فوجی فرٹیلائیزر کمپنی کو بیچ دیا گیا۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

ایک ایسے وقت میں جب فوجی فرٹیلائیزر کمپنی قانونی طور پر بولی میں شریک ہونے کی اہل نہ تھی، منشا گروپ کے ہاتھوں جو نواز شریف کا حمایت یافتہ تھا 65 ارب کے اثاثے رکھنے والے اور سالانہ ایک ارب روپیہ منافع دینے والے مسلم کمرشل بنک کو محض 87 کروڑ میں بیچ دیا گیا یہی نہیں بنک میں موجود کھاتے داروں کی امانتوں میں خیانت کرتے ہوئے اس رقم سے ملک بھر کی گھی اور سیمنٹ فیکٹریاں خریدی گئیں ایک طرح سے سرمایہ دارحکمرانوں نے اپنے معاشی مفادات کو نجکاری کے نام سے موسوم کیا نواز شریف بھی ٹریکل ڈائون اکانومی کی پالیسی کے تحت 278سرکاری اداروں کو منظور نظر افراد کے ہاتھوں بیچنے کیلئے کمر کس چکے ہیں جس سے اُن کے منظور نظر خریداروں کے منافعوں میں تو بے پناہ اضافہ ہو گا مگر کروڑوں افراد خودکشی کی دہلیز پر پہنچ جائیں گے بھٹو کی نیشلائیزیشن پالیسی پر تنقید کرنے والے پرائیویٹائیزیشن کے دلدادہ سرمایہ دار حکمران کیا اس کڑوے سچ سے جان چھڑا سکتے ہیں کہ نجکاری سے پہلے 2005میں پی ٹی سی ایل کی کل آمدن 84ارب روپے تھی جبکہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد خالص منافع 27 ارب روپے تھا نجکاری سے پہلے چار سال تک ادارے کے منافع میں 11فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا تھا سابق آمر مشرف کے دور اقتدار میں ایک گھائو یہ لگا کہ اس کے 26 فیصد حصص متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی اتصالات کو کوڑیوں کے بھائو بیچ دیئے گئے قوانین تک کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ادارے کی باگ ڈور بھی اتصالات کے ہاتھوں میں دے دی گئی آج سات سال ہونے کو آئے اتصالات نے نجکاری کی قیمت تک حکومت پاکستان کو ادا نہیں کی 80 کروڑ ڈالر تاحال مذکورہ کمپنی کے ذمہ واجب الادا ہیں جبکہ اتصالات اس سے کہیں زیادہ رقم کما کر وطن عزیز سے باہر بھیج چکی ہے۔

گزشتہ سات سالوں میں پی ٹی سی ایل کی آمدن 84 ارب سے گر کر 8 ارب روپے ہو چکی ہے جو سالانہ 18 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے نجکاری سے قبل 2005 میں حصص کی مارکیٹ میں قیمت 358ارب روپے سے کم ہو کر 2012 میں محض 53 ارب روپے پر آگئی اس طرح ریاست کو 225 ارب روپے کا خسارہ ہوا ادارہ میں موجود پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ہزاروں لائن مین ،انجنیئرز اور دوسرے محنت کش نکالے گئے 32000 ہزار افراد کو صرف گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر نکالا گیا جن کی پنشنوں کی مد میں 25 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم جو اتصالات کمپنی نے ادا کرنا تھی حکومت پاکستان نے ادا کی ملک یقیناً معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اداروں کی نجکاری کوئی حل نہیں اُن افراد پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے جنہوں نے حب الوطنی کا قتل کرتے ہوئے اپنی کرپشن سے اداروں کو تباہ کیا نجکاری کی پالیسی بدترین عوام دشمن پالیسی ہے جس میں ریاست کی ملکیت کونجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

وینز ویلا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نجی اداروں کو تیزی سے قومی ملکیت میں لیا جا رہا ہے ایک مثال لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا کی بھی ہے جہاں وطن عزیز کی طرح تیل سے بجلی تیار کرنے والی کمپنیاں لوٹ مار میں مصروف تھیں اور عوام لوڈ شیڈنگ کی اذیت کو بھگت رہے تھے بولیویا کے صدر ایوا مورالس ان کمپنیوں کی لوٹ مار سے اپنے عوام کو نجات جذبہ حب الوطنی سے دلائی کہ ان کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لیکر شرح منافع کو 80 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دیا جس سے نہ صرف بو لیویا میں عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات ملی بلکہ بجلی کی قیمتوں میں 60فیصد تک کمی ہوئی محب وطن حکمران نیشنلائزیشن کی پالیسی کو اپناتے ہیں اور اُن کا یہ عمل خالصتاً عوام کیلئے ہوتا ہے پیپلز یونٹی آف پی آئی اے ایمپلائز ملتان کے احتجاج کو بھی ان ملک دشمن اقدامات کے خلاف ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک