وزیر اعظم محمد نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاک فوج کا 15 واں آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو جنرل کے عہدہ پر ترقی دے کر چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا ہے۔ صدر ممنون حسین نے آئین کی دفعہ 3 کے تحت وزیر اعظم نواز شریف کی ایڈوائس پر ان تقرریوں کی منظوری دی۔
اس فیصلہ سے کچھ اور پتہ چلے یا نہ چلے یہ ضرور واضح ہو گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے نہ اصولوں کی پاسداری سیکھی ہے اور نہ اس خوف سے نجات پائی ہے کہ فوج سویلین حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ فوج کے نئے سربراہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو بھی جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
یہ عہدہ اگرچہ اصولی طور پر زیادہ اہمیت کا حامل ہے تاہم اس عہدے پر ترقی پانے والے افسر کے پاس حقیقی اختیارات نہیں ہوتے۔ اس طرح دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود جرنیلوں کو ترقی دیتے ہوئے سنیارٹی میں نمبر ایک پر موجود لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جنرل اسلم نے حکومت کے فیصلے کے بعد فوجی روایت کے مطابق اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
یوں تو فوج کی سربراہی کے لئے اپنی مرضی کا جنرل چننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس طرح کے فیصلے کرنے کی روایت پاکستان میں موجود رہی ہے۔ تاہم ماضی میں اس قسم کے فیصلے مہلک ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خوشامد پسند ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ انہوں نے نہ صرف بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا بلکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے کا سبب بھی بنے۔
اسی طرح وزیر اعظم کے طور پر اپنے دوسرے دور کے دوران نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو متعدد سینئر افسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کے سربراہ کے منصب پر فائز کیا تھا۔ لیکن ایک برس بعد ہی انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف جہاز اغوا کرنے اور اقدام قتل کا مقدمہ بنا کر سزا بھی دلوائی گئی۔
بعد میں سعودی عرب کی مداخلت پر شریف خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا۔ وکلاء تحریک کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں شگاف پڑا تو ہی نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو وطن واپس آنا نصیب ہوا تھا۔ میاں نواز شریف نے سعودی عرب سے واپسی کے بعد گزشتہ 6 برس کے دوران متعدد بار یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔
اب نواز شریف ایک بدلے ہوئے سیاستدان ہیں۔ معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور وہ زیادہ دھیرج اور تحمل سے فیصلے کرتے ہیں۔ تاہم اس تبدیلی کے باوجود موجودہ فیصلے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا ماضی سراب کی طرح ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ اس خوف سے نجات حاصل نہیں کر سکے کہ کوئی ”نا پسندیدہ” آرمی چیف ان کی سویلین حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتا ہے۔
نہ انہوں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ملک میں سیاسی جمہوری حکومت کا تسلسل اور استحکام اس بات کا محتاج نہیں ہونا چاہئے کہ کون شخص افواج پاکستان کا سربراہ ہے یا وہ حکومتِ وقت کا کتنا دوست ہے۔ بلکہ اس کا انحصار سیاستدانوں کی اصول پرستی اور قواعد کے مطابق فیصلے کرنے کی قوت کی بنا پر ہو گا۔میاں نواز شریف انتخابی مہم کے دوران اور مئی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ آئندہ فوجی سربراہ سنیارٹی کی بنیاد پر ہی بنایا جائے گا۔ تا کہ ایک اصول وضع ہو سکے۔ اس اصول کے تحت فیصلہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم کو کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وزارت دفاع سینئر ترین جرنیل کے نام کی سمری وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھیج دیتی اور وہاں سے اسے ایوان صدر بھجوا دیا جاتا۔
Raheel Sharif
تاہم گزشتہ کئی ماہ سے نئے فوجی سربراہ کی تقرری کے سوال پر بے شمار قیاس آرائیوں کے بعد بالآخر وزیر اعظم نے پورے اطمینان اور تسلی کے بعد ایک ایسے جرنیل کو یہ ذمہ داری دی ہے جس کے خاندان سے ان کے مراسم دو نسلوں پر محیط ہیں اور جو ان کے معتمد خاص اور وفاقی وزیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ کے بھی بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح میاں نواز شریف نے ایک بار پھر یہ موقع گنوا دیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کی تقرری کے لئے ملک کی سیاسی حکومت ایک خوش آئند روایت کی بنیاد رکھتی اور یہ اصول طے کر دیا جاتا کہ صرف سینئر ترین جنرل ہی، عہدہ خالی ہونے پر آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پائے گا۔
حیرت انگیز طور پر فوج کی سربراہی کے سوال پر یہ اصول نظر انداز کرنے والی حکومت نے چیف جسٹس کے عہدے کے لئے سینئر ترین جج جسٹس تصدق حسین جیلانی کو ہی ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ وہ اس معاملہ میں بھی اپنا صوابدیدی حق استعمال کر سکتے تھے۔
اس وجہ شاید یہ ہو کی جسٹس جیلانی سات ماہ میں ریٹائر ہونے والے ہیں جبکہ آرمی چیٍ تین برس تک فوج کے کمانڈر ہوں گے۔ عام طور سے فوج کے نئے سربراہ کا اعلان موجود چیف کی ریٹائرمنٹ سے چار سے چھ ہفتے پہلے کر دیا جاتا ہے۔ تا کہ وہ اپنے نئے عہدے کی مناسبت سے تیاری کر لیں۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے اعلان کرنے کے لئے آخری لمحے تک انتظار کیا۔ عام قیاس یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہی مزید تین برس کے لئے اس عہدے پر توسیع دینا چاہتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ جنرل کیانی موجودہ بحرانی حالات میں سیاسی حکومت کے لئے موزوں ترین شخص ہیں کیونکہ 6 برس تک فوج کا سربراہ رہنے کے دوران انہوں نے کسی قسم کے ایڈونچر کا شائبہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ اس حوالے سے افواہیں اور سرگوشیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ جنرل کیانی کو خود یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ 27 نومبر کو اپنے عہدے کی دوسری مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس وقت تک جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ کا عہدہ بھی خالی ہو چکا تھا لیکن حکومت کی طرف سے نہ اس عہدے پر تقرری کی گئی اور نہ نئے آرمی چیف کا جلد اعلان کیا گیا۔
اس دوران بعض حلقوں کی جانب سے یہ گل فشانی بھی کی جاتی رہی کہ میاں صاحبان جنرل کیانی پر اس قدر اعتبار کرتے ہیں کہ انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے کر جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا سربراہ بنایا جائے گا اور یہ عہدہ جو اب تک رسمی حیثیت رکھتا ہے اسے اصل عسکری قوت کا مرکز بنا دیا جائے گا۔ گویا جنرل کیانی بدستور ملک کے ” آئرن مین ” رہیں گے۔البتہ آج کے اعلان سے یہ ساری پیشن گوئیاں دم توڑ گئی ہیں۔
تاہم اب بھی ”باوثوق” ذرائع سے یہ خبریں جاری ہو رہی ہیں کہ جنرل کیانی کو حکومت میں بہت ہی اہم عہدہ دیا جائے گا۔ تاہم وزیر اعظم آج رات یہ سوچ کر اطمینان کی نیند لے سکیں گے کہ جمعہ کو فوج کی سربراہی سنبھالنے والا جنرل ایک شریف النفس انسان ہے اور ان کے والد میجر محمد شریف کے ساتھ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کے قریبی تعلقات بھی تھے۔ جنرل راحیل شریف بھی لاہور سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس طرح دونوں خاندان ایک دوسرے کے قریب سمجھتے جاتے ہیں۔
پاک فوج کے نئے سربراہ کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971ء کی جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ انہیں اس بہادری پر ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر بھی عطا ہوا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ چند برس جی ایچ کیو میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی میں صرف کئے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کو درپیش خطرات سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اس کے باوجود ماہرین جنرل شریف کو بہترین چوائس قرار نہیں دیتے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی رپورٹ میں انہیں اوسط درجے کا افسر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ میجر جنرل کا عہدہ دیا جا سکتا تھا۔ وہ 6 لاکھ کی پاک فوج کی سربراہی کے اہل نہیں ہیں۔ نئے عہدے پر ترقی پانے کے بعد فوجی معاملات کے علاوہ خارجی معاملات میں ان کا رول بے حد اہم ہو گا۔افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اس ملک کے بارے میں پاکستان کی حکمت عملی کے اعتبار سے بھی پاک فوج کے نئے سربراہ کی رائے بے حد اہم ہو گی اور حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز بھی ہو گی۔