تحریر : قادر خان یوسف زئی چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرتی برائیوں سے لڑ رہا ہوں ، ملک کی بقا ء قانون کی حکمرانی میں ہے۔ نا انصافی کے دور کے خاتمے کی ابتدا کردی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں کسی سے محاذ آرائی نہیں کرنی، عوام کو جلد انصاف فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انصاف کی فراہمی کا حلف دیا ہے اپنی ذمے داری پوری کررہا ہوں ۔ہائیکورٹ بار میں چیف جسٹس آف پاکستان کا خطاب نہایت اہمیت کا حامل تھا ۔ گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ نواز کے بانی کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے صدارت سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد سیاسی مستقبل کے علاوہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی میں شدت آنے کا تصور زور پکڑتا جارہا ہے۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر نہیں رہے ۔ لیکن فی الوقت پارٹی رہنمائوں اور کارکنان کی جانب سے اظہار کیا جاچکا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے پاس کوئی حکومتی یا غیر حکومتی عہدہ ہو یا نہ ہو ، وہ اُن کے سربراہ و قائد ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کا نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ جس سیاسی جماعت کا نام بانی کے نام سے ہو اُسے سیاسی عمل سے دور نہیں کیا جا سکتا ۔میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر تو نہیں رہے لیکن ان کے بانی ہونے کی حیثیت برقرار ہے اور پارٹی میں ہونے والے فیصلوں پر ان کی توثیق ضرور رہے گی۔
دوسری جانب نا اہلی کی مدت کے تعین کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کو کرنا باقی ہے جس کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے ۔ تاہم تا حیات نا اہلی کے باوجود نواز شریف بظاہر حکومتی انتظام و انصرام میں سامنے نہیں ہونگے لیکن پس پردہ میاں نواز شریف ، پاکستان مسلم لیگ نواز کے بانی ہونے کی حیثیت سے فیصلے کرتے رہیں گے ۔سیاسی حلقوں میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں بعض سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کا بانی ویٹو پاور غیر اعلانیہ طور پر استعمال کرتارہا ہے ۔ گو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کوئی تحریک نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعت میاں نواز شریف کے نام سے منسوب ہے ۔ اب الیکشن کمیشن اس بات کی تشریح عدالت عظمیٰ سے حاصل کرے کہ با حیثیت پارٹی صدر میاں نواز شریف کا نام تو ہٹا دیا گیا ہے لیکن پارٹی کے نام کا کیا کیا جائے جو میاں نواز شریف کے نام پر قائم ہے۔پارٹی صدارت کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نواز میں ایک ایسی شخصیت کو بھی صدر بن سکتا تھا جس طرح شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔تاہم میاں شہباز شریف اس وقت پارٹی صدارت و وزرات اعظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر تصور کئے جاتے ہیں ۔ لیکن میاں نواز شریف کے سیاسی مزاج کو مد نظر رکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی صدارت انتہائی وفادار رہنے والے کو ہی دی جا سکتی ہے ۔کیونکہ میاں نواز شریف میں سیاسی اختلاف میں برداشت کی کمی بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں و عوام اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے میاں نواز شریف کے صدارت میں رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ فیصلوں کا اختیار ان کے پاس ویٹو پاور کی صورت میں موجود رہے گا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز میں دھڑے بندیا ں اُس وقت ہی ممکن ہے جب پارٹی صدر کی جانب سے بے جا مداخلت پر دیگر پارٹی رہنما دبائو بڑھائیں ۔سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف ، پاکستان مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے اپنی انتخابی مہم کو مزید جارحانہ بنانے کی تیاریوں میں لگے ہیں۔ ان کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر سخت ردعمل متوقع تھا ۔ اور اس کا اظہار انہوں نے فیصلے کے اگلے دن ہی کردیا۔ احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ” یہ فیصلے غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلے نے مقننہ پارلیمنٹ کا اختیار بھی چھین لیا ہے، انہوں نے کہا کہ 28 جولائی کو بلیک لاء ڈکشنری استعمال کی گئی اور میری وزارت چھینی گئی جبکہ گزشتہ روز آنے والے فیصلے سے میری پارٹی صدارت بھی چھین لی گئی۔ میرانام محمد نواز شریف ہے چاہیں تو میرانام بھی چھین لیں۔نوازشریف نے کہا کہ یہ فیصلے میری ذات کے گرد گھومتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تو نااہل کر دیں۔ اب ان کا خیال ہے کہ نوازشریف کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے نکال دیں”۔پاکستان میں مورثی سیاست کا راج رہا ہے ۔ اس لئے اس حلقہ اثر سے نکلنا آسان نہیں ہے۔پاکستانی عوام کی سیاست بھی شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔
سیاسی شخصیت پرستی کی وجہ سے پاکستانی سیاست جمود سے باہر نہیں آسکی ہے۔میاں نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے آنے والے دنوں میں احتساب عدالت سمیت کئی فیصلے تعین کریں گے کہ انہیں سیاسی نقل و حرکت کا موقع ملتا ہے یا پھر کسی ممکنہ سزا کے بعد قصہ پارنیہ بن جائیں گے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں کو صائب مشورہ دیا جارہا ہے کہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرلیں اور نظام کو خطرات سے دوچار نہ کریں ۔سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کا مرحلے کے بعد عام انتخابات بھی تسلسل سے ہوں ۔ لیکن یہاں ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات کو موجودہ حالات میں موخر کرانے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہے گی ۔ گوکہ تحریک انصاف قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن اب تبدیل شدہ صورتحال کے بعدان کا بیانیہ بدل چکا ہے ۔ انہیں اس بات کی امید ہوچلی ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں کی بنا پر عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس لئے تحریک انصاف نے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور سینیٹ انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بعد فی الوقت صوبہ پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی توڑنے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔
سنجیدہ حلقے پاکستان مسلم لیگ نواز کے بانی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی کو ختم کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔ عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ انہیں کس پارٹی کو کیوں ووٹ دینا ہے۔ عمومی رائے یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں سے میاں نواز شریف کے موقف کو مقبولیت ملی ہے۔ لیکن ہمارے سامنے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مثال موجود ہے کہ ان کے جارحانہ بیانات کو سنجیدہ حلقوں میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا جاتا ۔ خاص طور پر پارٹی قیادت پر کسی مخالف کی تنقید یا رائے کے بعد سوشلستان میں جس طرح طوفان بد تمیزی مچا دی جاتی ہے اس کو بالکل نا پسند کیا جاتا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے حامیوں کی جانب سے ردعمل میں عدم برداشت کے مظاہرے میں اخلاقیات کو توازن میں رکھنے کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی ، عدلیہ کے خلاف محاذ پر تحمل کا مشورہ دے چکے تھے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز نے یہی بہتر سمجھا کہ جارحانہ طرز عمل سے اپنے حق میں فیصلے کرائے جا سکتے ہیں ۔ لیکن ان کی توقعات کے برخلاف سخت فیصلوں اور چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کسی قسم کی مفاہمت کے اشارے نہ ملنے کے سبب یہی جارحانہ طرز عمل پاکستان مسلم لیگ نواز کو مزیدنقصان بھی پہنچا سکتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی تو واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ اس مرحلے پر میاںنواز شریف کے ساتھ کسی بھی آئینی تبدیلی کے لئے مفاہمت نہیں کی جائے گی ۔ خاص طور پر پاکستان کے سابق صدر ضیاالحق کے دور میں 62/63 سمیت تمام ایسی شقوں کے خاتمے کے لئے نئی اسمبلی کے آنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔پی پی پی کے نزدیک موجودہ سیاسی مسئلہ میاں نواز شریف کا مسئلہ ہے۔ کسی فرد واحد کے لئے قومی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔بلاول بھٹوزرداری کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نظام میں گڑ بڑ کرنا چاہتے ہیں معاملہ ن لیگ کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاںنواز شریف کو عوام کی جانب سے بھی سزا ملے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوںکا ہدف صوبہ پنجاب ہے کیونکہ ملکی انتخابات میں یہی صوبہ اقتدار کا فیصلہ کرتا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب کو اپنا مضبوط قلعہ قرار دیتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز لیگ کی توقعات کافی بڑھ چکی ہے ۔ اس لئے پنجاب کی سیاست میں کسی دراڑ کو روکنے کے لئے میاں نواز شریف کی جانب سے سیاسی فیصلے ہی حقیقی رخ کا تعین کریں گے۔
دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نواز کو اپنے اندرونی اختلافات کو پہلے ختم کرنا ہو گا۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے قلعے میں کافی دارڑیں پڑ چکی ہیں۔ پارٹی رہنمائوں کے اختلافات عوام کے سامنے میڈیا کے توسط سے سامنے آچکے ہیں۔اہم رہنمائوں کے درمیان اختلافات کی جھلک کو اسمبلی فلور میں محسوس کیا جاچکا ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کو کئی محاذوں کا سامنا ہے۔ انہیں خود کو احتساب عدالت سے سزا سے بھی بچانا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے وجود کو بھی برقرار رکھنا ہے ۔ سیاسی جانشینی کا فیصلہ بھی کرنا ہے۔ اندرونی اختلافات کو ختم کرکے چومکھی کی لڑائی سے باہر آنے کے لئے انہیں یقینی طور پر سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔جلد بازی اور حقائق سے منافی فیصلے نواز لیگ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں سے نواز لیگ کو لاکھ اختلاف ہوں لیکن انہیں سیاسی دائرے میں رہ کر خود کو بھنور سے نکالنا ہوگا ۔ کسی نئی مہم جوئی کاملک و قوم متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہمیں مملکت کی سلامتی کو مد نظر رکھنا ہوگا۔وطن عزیز کو اس وقت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اندرونی و بیرونی خطرات کے مہیب سائے پاکستان پر چھائے ہوئے ہیں۔ مشرقی ، مغربی و شمالی سرحدیں شدت پسندوں و وطن دشمن عناصر کی سازشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ امریکا اور بھارت پاکستان کے کمزور سیاسی ڈھانچے کو زک پہنچانے کے لئے سنہرے موقع کا انتظار کررہے ہیں۔ معاشی بحران کا بھیانک خطرہ سر منڈلا رہا ہے۔ قوم سیاسی انتشار میں منقسم ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں قوم میں اتفاق و یک جہتی کو فروغ دینے اور متحد ہونے کا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری کسی بھی کوتاہی سے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی ملک دشمن سازشوں کو ناکام بنانا ہم سب پر لازم و ملزوم ہے۔