تحریر : رائو عمران سلیمان دیکھا جائے تو شریف خاندان پر 1993 سے قسمت کی قلابازیوں کا پہرا لگا ہوا ہے، عروج و زوال کے یہ سائے شریف خاندان کا وقت کے ساتھ ساتھ مقدر بنتے رہے ہیں۔ 1993 میں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو انہیں اس وقت کے صدر نے چلتا کیا 1999 میں آرمی چیف نے ملک سے باہر کی راہ دکھائی اور بدقسمتی سے رواں برس 2017میں یہ اعزاز سپریم کورٹ کے حصے میں آیاہے۔نوازشریف نااہلی کیس میں حکومت وقت نے شاید پورے ججمنٹ کو ٹھیک طرح سے دیکھا یاپڑھا نہیں یاپھر یہ جان بوجھ کر قوم کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کررہے ہیں،فیصلے میں اقامہ پر اگر نوازشریف کونااہل کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی پانامہ لیکس اور دیگر معاملات کو معاف کردیا گیاہے ،ان پانچ ججوں نے کرپشن کے چارجز6ماہ کے اندر اکاونٹبلیٹی کورٹ میں کھولنے کہا ہے جن کی سزائوں کو یقینی طور پر بھگتنا ہوگا۔یعنی “پکچر ابھی باقی ہے”نوازشریف کی بیٹی مریم ،داماد کیپٹن صفدر اور سمدھی اسحاق ڈارکو اب اس معاملے میں اپنی بیلوں کو تیاررکھنا ہوگا کیونکہ احتسابی عدالت میں ایسے کیسز میں اکثر گرفتاریوں کا خدشہ ہوتا ہے۔
بیل مل بھی جاتی ہے کہ آپ جب آپ ہمیں طلب کرینگے ہم حاضرہوجائینگے ۔حکومت اب اقامہ کو جواز بناکر اس کیس کو عوام کے سامنے رکھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ شریف خاندان کو کرپشن کیس میں سزا نہیں ہوئی ہے یعنی پانچ ججوں کے مختلف ریمارکس میں سے ایک اقامہ کو سیاسی رسہ کشی کے لیے رکھ چھوڑا ہے دوسری جانب حکومت اس کیس کو سی پیک کے خلاف سازش قرار دے رہی ہے مگراس فیصلے کے بعد چائنہ نے تو صاف کہہ دیاہے کہ ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک اور پہلو میں حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اس کیس میں عالمی سازش کارفرما ہے اور یہ کہ اس میں اسٹیبلشمنٹکا ہاتھ کارفرما ہے جبکہ حکومت ہندوستان سے تعلقات درست رکھنا چاہتی چاہتی تھی اور اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں تھی نہیںشاید یہ وجہ ؟ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ سب قیاس آرائیاں تو ہوسکتی ہیں مگر اس میں حقیقت کچھ اور ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر نوازشریف کی نااہلی میں کسی فوجی طاقت کا عمل دخل ہوتا توانہیں خالی نوازشریف کو ہٹانا مقصود نہ ہوتاوہ اگر چاہتے تو نوازلیگ کا پاکستان کی تاریخ سے ہی خاتمہ کرسکتے تھے یہ نوازلیگ کی عادت ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کئی پنگے لینے کی شوقین ہیں جو انہیں وقت وقت کے ساتھ بھگتنا بھی پڑے ہیں پہلے یہ پنگا لیتے ہیں اور بعد میں ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔
فی الحال نواشریف کے خاندان پر ابھی پریشانیوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے کچھ عرصہ کے بعد احتسابی کورٹ نے جب اپنا کام شروع کیاتو حکمرانوں کے بیانات کا سلسلہ بھی بدل جائے گا اور بیانات اقامے سے پانامے میں تبدیل ہوجائینگے میں سمجھتا ہوں کہ پھربھی کرپشن کے چارجز میں کوئی سزائے موت یا عمر قید کا تصور نہیں پایا جاتا ایک سزا سات سے آٹھ سال اور بس جبکہ اس قسم کے معاملے کی تلوار ان کی گردنوں پرضرور لٹکتی رہے گی ۔قائرین کرام پانامہ لیکس کا معاملہ جب شروع ہوا تو اس میں صرف نوازشریف ہی نامزد نہیں تھے بلکہ اس میں دنیا کے کئی وزرا ء اعظموں کے نام شامل تھے ،جس میں اور پاکستانیوں کے نام شامل رہے دنیا بھر میں پانامہ ذدہ لیڈروں نے تو اپنی جان چھڑا لی کسی نے استعفیٰ دیکر جان چھڑائی تو کوئی خود ہی عوامی عدالت میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے پہنچ گیا۔ مگر نواز شریف صاحب ایک ضدی بچے کی طرح اڑے رہے اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی جبکہ نوازشریف اس مسئلے پر سہی معنوں پر ایکسپلین کرنے کو تیار بھی نظر نہیں آئے جس کا نتیجہ بھی آج قوم کے سامنے موجود ہے۔
فی الحال تاحیات نااہلی کے سبب نوازشریف کا کردار اب بدل چکا ہے مگرنوازشریف کو سیاست کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا بیک فٹ پر بیٹھ کر حکومت کو چلانے سے انہیں کوئی منع نہیں کرسکتا وہ جلسے بھی کرسکتا ہے اور پریس کانفرنسوں سے خطاب بھی اس کے باوجود حکومت یہ ضرور چاہے گی کہ نوازشریف پر نااہلی کا داغ دھل جائے اور وہ چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوجائیں مگراس کے لیے انہیں ایک نئی ترمیم لانا ہوگی جس کی کوششیں یقیناً میاں شہباز شریف بطور وزیراعظم بن کر ضرور کرینگے مگر یہ اس قدر آسان کام نہیں ہے اگر یہ اتنا ہی آسان کام ہوتا تو62۔63کے خاتمے کے لیے نوازشریف صاحب ہی اپنے عہدے پر رہتے ہوئے اس ترمیم کو کرگزرتے میں، سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت اس ترمیم کو لاتی ہے تو ماضی کے اس قسم کے کئی کیسوں کو بھی ختم کرنا پڑے گا۔
ابھی کچھ عرصہ کی تو بات ہے کہ جب نوازشریف صاحب خود 62-63کے آرٹیکل کو ختم کرنے کے خلاف تھے مگراب اس قسم کے قانون کو نواز لیگ اکیلے چاہے بھی تو ختم نہیں کرسکتی اس میں پارلیمنٹ میں بیٹھی دیگر جماعتوں کا بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونا بہت ضروری ہے میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کرنا ایک طویل اور مشکل کام ثابت ہوگا ۔قائرین کرام ہم اگرنواز لیگ کی تاریخ کا بغورجائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اقتدار اسی کو ملتا رہاہے جو شریف فیملی کاوفادار،خدمت گزار ،بزنس پارٹنر یاپھر ان کی گڑ بک میں شامل ہوعبوری وزیراعظم شاہد خاکان عباسی نوازشریف کی جیلوں کا ساتھی تھا آج وہ چالیس دن کے لیے ہی سہی مگر پاکستان کی تاریخ کا حصہ تو بنا ! یقینا اس ملک کی عوام اس وقت بھی شریف فیملی کی گڑ بک میں نہیں تھی جب نواز شریف پنجاب کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہے اور بعد میں تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تونواز لیگ ایک پولٹیکل فورس تھی اور رہے گی میرے خیال میں نواز شریف کی نااہلی سے پارٹی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا ہم نے دیکھا کہ عام طور پر انتخابات میں زیادہ تر ایڈوانٹیج اسی کے پاس ہوتا ہے جس کے پیسہ زیادہ ہوتاہے اورپیسہ کسی کے پاس بھی حکومت سے زیادہ نہیں ہوسکتا،یعنی عوامی ہمدردی میں سڑکیں بنوادو گلی محلوں میں ٹف ٹائلیں بچھوادو وغیرہ ،نوازلیگ کو پنجاب کی حکمرانی میں بزنس کمیونٹی اور مذہبی حلقوں کی بھرپور حمایت ملتی رہی ہے کیونکہ یہ لوگ بھی اپنے بہت سے کام شریف خاندان سے کروالیتے ہیں ایسے میں اگر کوئی شریف خاندان کی سپورٹ کے لیے تیار نہیں ہوتا توانہیں تنگ کرنے کے لیے انکم ٹیکس آفیسرز کوان لوگوں کے گھروں میں بھجوانا یاان پر جھوٹے مقدمات درج کروانا ان کا آسان ترین ہدف اور پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔