میرا زوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں بہت سی باتوں سے اختلافات سہی مگروہ اپنی پھانسی سے قبل صرف اتنا سا جملہ منہ سے نکال دیتاکہ پاکستان ایٹم بم بنارہاہے تو یقین جانے امریکا جیسے کئی ممالک پاکستان کو پلک جھپکتے میں بارود کا ڈھیر بنادیتے مگر آفرین وہ شخص ایک عظیم راز کو سینے میں لیکر پھانسی پر چڑھ گیا ،زوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کچھ ہی عرصے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو جو اس وقت ملک سے باہر تھے انہیں جبری اندازمیں وزارت عظمیٰ سے باہر کردیا گیا مگر محمد خان جونیجو نے بھی قومی اور زاتی مفادات کا پاس رکھا اور وہ راز جو زوالفقارعلی بھٹو کے سینے میں دفن تھا اس راز کوافشاں نہیں کیا اس کے علاوہ غلام اسحاق خان کو جس انداز میں ملکی اقتدار سے نکالا گیا اس نے بھی یہ مناسب نہ سمجھ اکہ قومی رازوں کو افشاں کرکے زاتی مفادات کا خودکش دھماکہ کردیا جائے ،لیکن اب وقت بدل چکاہے کیونکہ تاریخ ایک ایسے شخص کو بھی اپنے اندر زندہ رکھے گی جو اس ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم بنامگر جب اسے محسوس ہوا کہ اسے سزا ہونے جارہی ہے تو وہ اس حلف کا پاس نہ رکھ سکا جو اانہوںنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تین مرتبہ اٹھایا تھا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ نوازشریف کو اپنی قوم کو ایسے بیانات دیکر مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا، نواشریف اب سمجھ چکے ہیں کہ اب انہیں سزا ہونے والی ہے لہذا وہ اپنی سزاکو کرپشن کے داغ سے دور رکھنے کے لیے گزشتہ کئی مہنیوں سے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کبھی وہ عدلیہ کو للکارتے ہیں تو کبھی غیبی اور پراسرار قوتوں کا نام لینے لگتے ہیں اس عمل میں گزشتہ دنوں انہوںنے جس قومی ادارے کو خلائی مخلوق کہہ کر پکاراہے یقیناً وہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں ان کا اشارہ فوج کی جانب ہی ہے جن سے ان کی اپنے تینوں ادواروں میں نہ نبھ سکی ہے ،موجودہ وقتوں میں اپنی سزا کو یقینی ہوتے دیکھ کر اور خود کو انٹرنیشنل سیاست میں لانے کے لیے ممبی حملوں سے متعلق جو بیان انہوں نے دیاہے وہ بھی میرے خیال کے مطابق کرپشن کے کیسز سے بچنے کے لیے ہی کیا گیا ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ کرپشن کے کیسز سے ہٹ جائے اور کوئی الگ سے ایسا ایشو بنے جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں زیر بحث ہو اور ممبئی حملوں میں قومی اداروں پر الزام تراشیاں کرکے انہوں نے ایسا کر دکھایا ہے۔
آج ہرنیوز چینل اور پرنٹ میڈیا میں یہ ہی زیر بحث ہے کہ نوازشریف نے ایسا کیوں کہا اور کس کے کہنے پر کیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوازشریف اپنی عجیب وغریب حرکتوں کے باعث اپنے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں، اور ان کی اس حرکت سے ان کی پارٹی بھی اب بند گلی میں آکر کھڑی ہوچکی ہے جس طرح 22اگست کے بیان پر متحدہ قائد کے معاملے میں ان کے جانثاروں کے لیے الطاف حسین کا دفاع کرنا مشکل ہوچکاتھا بلکل اسی طرح نوازشریف کے موجودہ بیان کا دفاع کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے ،جس کی بھرپورکوششیں موجودہ وزیراعظم اس وقت کررہے ہیں حیرت صرف اس بات کی ہے کہ ایک شخص تین بار ملک کا وزیراعظم رہے یقیناوہ صاحب بصیرت اور صاحب عقل آدمی ہوگا اس سے امید تو یہ ہی کی جاسکتی ہے کہ وقوم کے لیے آسانیاں پیدا کریں نہ کہ اپنی قوم کو امتحانوں میں ڈالے ،نوازشریف کی اس قسم کی گفتگو اوررد عمل نہ صرف ان کی پارٹی کے لیے خطرناک ہیں بلکہ اس سے ان کے خاندان کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ،یقینا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آج کے بعد میاں نوازشریف سیاست کی طرف پلٹ کر بھی نہ آسکیں گے ۔کیونکہ اس بیان کے بعد لوگوں میں جو بے چینی شروع ہوچکی ہے وہ انتہائی خطرناک صورت اختیارکرسکتی ہے پاکستان کی قوم بھارت کو اپنا ازلی دشمن سمجھتی ہے اس کے علاوہ اس قسم کے بیانات سے امریکا کے ان بیانات کو بھی تقویت ملتی ہے جس پر وہ پاکستان پر الزامات لگاتا رہاہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیںجس پر پاک فوج کی جانب سے تردید کی جاتی رہی ہے اب بھلا ایک ایسا آدمی ہمسایہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار اپنے ملک کو ٹھہرانے لگے تو اس پر کیا کیا جاسکتا ہے ،اس بیان سے بھارت میں ایک جشن کا سماں ہے بھارت کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے ان کے موفف کو درست قراردیدیاہے جس پر بھارت پہلے دن سے ہی شور مچارہاتھا ،نوازشریف نے اپنے بیان پر جس کمیشن کو بنانے کی بات کی ہے۔
اس سے پہلے وہ یہ بتائیں کہ یہ خلائی مخلوق کون ہے ؟ یقیناآپ کااشارہ فوج کی جانب ہے جس سے آپ کی ازلی دشمنی ہر ایک زبان پر موجودہے ،یہ خلائی مخلوق کا لفظ بھی فوج کی بدنامی کرنے کے مترادف ہے جبکہ حیرت انگیر بات یہ ہے کہ نوازشریف کی سیاست خود بھی ایک ڈکٹیر کی پیداوار ہے جس نے ان کی معمولی سیاست کو راتوں رات اٹھا کر وزیراعظم بنادیاتھا یعنی یوں کہا جائے کہ جنرل مشرف کرپٹ فوجی افسر تھا اور جنرل ضیاء الحق کی مہربانیوں کی بدولت وہ فوج کا ایک عظیم افسر تھا ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج وہ فیصلے کرتی ہے جس سے ملک کی سرحدیں محفوظ ہو فوج کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور وہ ہے ملک کی سرحدیں مستحکم ہو، اوراس ملک کی جانب کوئی آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھ سکے ۔مگر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے جس انداز میں خلائی مخلوق سے سلسلہ شروع کیا اور کہاں جاکر اس کا اختتام کیا کہ ممبئی حملوں کا ذمہ دار پاکستان ہے ایک انتہائی درجے کی بے وقوفانہ حرکت ہے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستانی عدالتوں پر پیش رفت نہ ہونے کی ذمہ داری لگا کر انتہائی شرمناک کام ہے۔
جب کہ ایک جگہ پر امریکا خود یہ کہہ چکاہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے ،نوازشریف کے منہ سے آج تک یہ نہیں نکل سکا ہے کہ کلبھوشن ایک بھارتی دہشت گرد ہے جبکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کلبھوشن پاکستان سے بچ نکلے گا اس کے باوجود نوازشریف کے منہ سے آج تک کلبھوشن کے معاملے میں چپ لگی رہی ہے ،تاریخ بتاتی ہے کہ ممبی حملہ کیس میں خود بھارت نے تاخیری حربے استعمال کیئے جبکہ پاکستان نے بہت کوشش کی لیکن بھارت اس مسئلے کو خود ہی حل کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ اس کا مقصد اس ایشو کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا جس کا بھرپور ساتھ دیکر نوازشریف نے اپنے بیان سے پوری قوم کے سرشرم سے جھکادیئے ہیں۔
ممبئی حملوں کے واقعہ پر وقت گزرنے کے ساتھ گرد پڑنا شروع ہوچکی تھی مگربین الاقوامی خبروں کی زینت بننے کے شوقین نوازشریف نے اچانک ممبئی حملوں پر ایک ایسا بیان دیدیا ہے جو باعینی ملکی مفادات اور اس کی وحدت اور سا لمیت سے جاٹکرانے کے مترادف ہے یہ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اس قسم کی باتیں کیوں کررہے ہیں اور کس کے کہنے پر وہ ایسا کررہے ہیں ،غصے کی حالت میں کیے گئے بہت سے فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی میںانتہائی خطرناک ہوتے ہیں ،اسلام میں غصے کو حرام قراردیا گیا ہے اور اس ضمن میں غصہ پی جانے والی کی تعریف کی گئی ہے ، اس متنازع انٹریونے نوازشریف کو کن نقصانات سے دوچار کیا ہے اس کے اثرات بہت جلد انہیں معلوم ہونا شروع ہوجائیں گے کیونکہ بل آخر انہوںنے خودکش دھماکہ کر ہی دیا ہے۔