کراچی (جیوڈیسک) ذرائع کے مطابق پاکستان میں نواز شریف سخت دباؤ میں ہیں۔ قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے دو ماہ بعداسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کا غیر معمولی فیصلہ نواز حکومت کاتازہ ترین اقدام ہے۔
حکومت کے سینئر ارکان کا کہنا ہے کہ فوج کی تعیناتی کا مقصد طالبان کی ان کارروائیوں کو مسدود کرنا ہے جو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ردعمل میں ہو سکتیں ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے مخالفین نے تین ماہ کے لئے اسلام آباد کا کنٹرول فوج کے ہاتھ دینے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 14 اگست کو عمران کے حکومت مخالف احتجان کو روکنے کی منصوبہ بند ی ہے۔ اخبار کے مطابق کس کا موقف درست ہے اسے کئی پاکستانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ نواز شریف اپنے اقتدار کے ایک سال کی گرفت پر نروس ہیں۔
فوجی جرنیلوں کے پاس پالیسی سازی کے ایک وسیع کردار کے حوالے سے بھی نواز شریف کو خطرہ ہے۔ قومی سلامتی اور سیاست پر تجزیہ کار حسن عسکری رضو ی کا کہنا ہے کہ جو آپ مؤثر طریقے سے دیکھ رہے ہیں وہ یہ کہ حکومت نے تسلیم کرلیا کہ ان کی بقا کا انحصار فوج کی حمایت سے ہے۔ اس فیصلے کو وسیع پیمانے پر حکومت کی مکمل ناکامی کے طور پر دیکھا جائے گا تاہم ایک اوسط درجے کا پاکستانی اس فیصلے کو ایک گھبراہٹ کے عمل کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ صورت حال بگڑتی جا رہی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کا فیصلہ عوام اور ملک کے لئے سنگین نتائج رکھتا ہے،یہ سول انتظامیہ کی ناکامی بلکہ ہائیکورٹ کے دائرہ کار کی کلی معطلی ہے۔آرٹیکل 245کے تحت فوج کی تعیناتی کسی بھی فوجی اقدامات کو عدالت چیلنج کرنے سے روکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ میں کمی میں ناکامی اور سعودی عرب کا دس روزہ دورہ نواز شریف کی بے بسی کو تقویت دیتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ بہت سے پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جوتوانائی کے بحران اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔
انتخابی دھندلی کے متعلق انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے اسے بے نقاب کرنے کے لئے قانونی راستے اختیار کرنے کی کوشش کی مگر وہ راستے ختم ہو چکے۔ قانونی راستوں کے خاتمے کے بعد ہم نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔بہت سے عام پاکستانی کہتے ہیں کہ ہم نواز شریف سے مایوس ہیں۔