جب نواز شریف کو کچھ نہ ملا تو

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
میاں نواز شریف صاحب، بتائیں کہ لفظ” فریادی“ میں ایسا کیا ہے؟ آپ کو جو ناگوار گزراہ ے کہ آپ نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ”فریادی کا لفظ مناسب نہیں وزیراعظم چیف جسٹس سے وضاحت مانگ سکتے ہیں “ بتائیں لفظ فریادی میں ایسا کیاہے ؟ اور کیا تھا؟ کہ اِس ایک لفظ کو جواز بنا کر نواز شریف صاحب آپ اپنے انداز سے وزیراعظم کو حکم دینے کے بہانے سامنے والے پر نفسیاتی دباو ڈالنا چاہ رہے ہیں۔

اَب ایسابھی نہیں ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ کیا چاہ رہے ہیں؟بات دراصل یہ ہے کہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہرفریادی کی ہردرسے مراد اِس کی مرضی کے مطابق پوری کردی جائے اگراُس در سے فریادی کی کوئی ایک مراد یا تمام مرادیں پوری ہوجا تیں تو پھرآپ کی نظرمیں سب اچھاتھا؟ فریادبھی اچھی تھی اور فریاد ی بھی اچھا تھا مگراَب چونکہ فریادی کی سُنی تو سب گئی ہے مگر ایک مراد بھی پوری نہیں کی گئی ہے تواَب سب کچھ غلط اور خاک میں مل گیاہے جی ہاں ایسا ہی ہے آج آپ جو سمجھ رہے ہیں اور جیسا کہہ رہے ہیں۔

آج میری اِس بات سے سب کو ضرور متفق ہونا پڑے گا کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھے شخصیت پرستی کے جا دوئی اثر میں غرق ہیں تب ہی یہ اپنے حکمرانوںاور سیاستدانوں کے برسوں پرا نے فرسودہ نعروں اور گھسے پیٹے منشوروں اور سیاسی شہداء کی قبروں کے گرد چکرلگاتے اورتھمال ڈالتے اپنی محرومیوں کا رونا روتے زمینِ خدا پر سِوا ئے بوجھ بننے کے کچھ نہیں کرپارہے ہیں ۔

اِس سے انکار نہیں کہ جب تک ماری دھتکاری ایڑیاں رگڑی بھوک و افلاس اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم عوام کو ہوش نہیں آجاتا ہے تیسری دنیا کے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے شاطر عیار ومکار حکمران اور سیاستدان عوام کو یوں ہی اپنے اقتدار اور سیاسی مقاصد کے لئے رگڑالگاتے رہیں گے،کبھی کسی نے سوچا اور غور کرنے کی مزحمت گوارہ کی ہے کہ یہ نعرہ بھی اِن ہی مفاد پرست، موقعہ پرست اور پلے درجے کے شخصیت پرست و خود نما ئی کی گھٹی میںتر رہنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہی پیداکردہ اور بنایا ہوا ہے جو اِنہوں نے عوام کو تھماکرخودتو مزے لوٹ رہے ہیں اور بیچارے عوام ہیں کہ اِس نعرے پر قربان ہوئے جارہے ہیں کہ ” ہمیں منزل نہیں رہنما ءچاہئے“۔

آج اِس نعرے کو بالخصوص پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے رہنماوںنے عوام کے کانوں کچھ اِس طرح گھول کر انڈیل دیاہے کہ آج مفلوک الحال فاقہ زردہ اور اپنے تمام بنیا دی حقوق اور ضروریاتِ زندگی سے محروم رہنے والے عوام اور ووٹرز جگہہ جگہہ لہک لہک کر بس یہی ایک خا ص نعرہ لگا تے نظر آتے ہیں کہ ”ہمیں منزل نہیں رہنماءچاہئے“۔

اِس میں کو ئی دورائے نہیں ہے کہ پہلے یہ نعرہ مُلک کی ایک سیاسی جماعت کی پہچان تھا آج اِس نعرے نے اُسے کہیں کا نہیں چھوڑاہے مگراَب ایسا لگتا ہے اورہماری دیگر سیاسی جماعتوں کے لچھن بھی یہی بتارہے ہیں کہ عنقریب مُلکِ پاکستان کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا درجہ اول کا یہی ایک نعرہ ہوجا ئے گاکہ”ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے“ کیوں کہ اِن دِنوں مُلک میں انتہائی سست رفتاری سے ہی سہی مگر احتسابی عمل جاری ہے اور ہر پارٹی کا سربراہ آئین کے آرٹیکل 63/62پر صادق امین کی حیثیت سے پورانہیں اُتررہاہے اِس بناپر اکثر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لوگ اپنے سربراہ کو احتسابی عمل سے بچا نے اور اِسے تحفظ دینے کے خاطر بہت جلد یہ نعرہ لگا نے والے ہیں کہ” ہمیں منزل نہیں رہنماءچا ہئے“ بس توپھراُس جماعت کی طرح جس نے سب سے پہلے یہ نعرہ لگایاتھاسب کی کہانی کہیں کی کہیں جا نکلے گی ۔

بہرحال ،آج جب نوازشریف کو” مجھے کیو ں نکالا؟؟ اور مجھے سینیٹ الیکشن میں کیوں ہرایا“کے بعد کچھ نہ ملا تویہ اپنی سیاست کو پَر لگانے کے لئے لفظ” فریادی“ کو ہی لے اُڑے ہیںحالانکہ اردو لغات میں لفظ فریادی کے لفظی معنی ” اِنصاف چاہنے والا“کے ہیں اِنصاف تو کوئی بھی چاہ سکتااور مانگ سکتاہے ؟ اورآج کل یہ بھی تو اقامے پر اپنی نااہلی کے بعد مُلک کی سڑکوں پر نکل کر عوامی اجتماعات اور دیگر پبلک پلیس پر اِنصاف ہی کی دہائی دیتے اور فریادی کی طرح آہ وفغان کرتے نظر آرہے ہیں توپھر کیوں؟ نوازشریف اِس لفظ” فریادی “ پہ آگ بگولہ ہورہے ہیں۔

تاہم خبروں کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ دِنوں ہونے والی وزیراعظم سے ملاقات کے متعلق قیاس آرائیوںپر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”سائل درپر آجائے توفریاد سُننا پڑتی ہے، وہ فریاد سُنانے آئے ، ہم نے کچھ نہیں دیا‘ ‘اور اِس کے ساتھ ہی اُن کایہ بھی کہناتھا کہ” میٹنگ سے کھویاکچھ نہیں پایا ہی ہے“۔

اَب اِس پرسابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے اسلام آباد میں احتساب عدالت میںپیشی کے بعد میڈیا سے گفتگوکے دوران اپنی سیاسی فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم کوجیسے اُکسانے اور غصہ دلا نے والے انداز سے کچھ یوں لب کشا ئی کی ہے کہ”چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان پر وزیراعظم مناسب سمجھیں تو وضاحت طلب کرسکتے ہیں چیف جسٹس کو ایسی باتیں نہیںکرنی چاہئیں جو اُنہوں نے کی ہیں“۔

آج بیشک ، سابق وزیراعظم نوازشریف کے اِن ریمارکس سے یہ واضح ہوگیاہے کہ میاں محمد نوازشریف کی طبیعت میں بادشاہوں اور چنگیز خان والی خصلت موجود ہے جن کے نزدیک لفظ فریادی کسی دوسرے کے لئے تو مناسب ہوسکتاہے مگر آج اِنہیں کسی بھی صورت یہ گوارہ نہیں ہے کہ اِن سمیت اِن کی جماعت کے وزیراعظم یا کسی رُکن کے لئے کوئی لفظ فریادی کا استعمال کرے کہنے والے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں نوازشریف نے خود کو مُلک کا بادشاہ سمجھ لیا ہے اورمہنگائی بھوک و افلاس سے مارے عوام کو اپنی سلطنت کی کمزور رعایاسمجھتے ہیں چونکہ اِنہیں اکثر یہی گمان کھائے جاتارہاکہ یہ تو بادشاہ ہیں پوری سلطنت پر بس اِن کا ہی اچھا یا بُرا حکم چلے گااِن کے علاوہ کسی کو کچھ اختیار نہیں کہ کوئی اِن کی حکم عدولی کرے اور اِن کے کاموں اور منصوبوں میںرغنہ ڈالے انداز کیجئے ، کہ ایسی سوچ تو کسی حقیقی بادشاہ یا کسی بادشاہ نما خصلت کے حامل شخص کی ہی ہوسکتی ہے اور اِس سے کسی بھی پاکستانی کو کسی مخمصے اور وسوسے میں پڑے بغیریقین کرلینا چاہئے کہ اَب نوازشریف اپنی خصلت اور طبیعت کے لحاظ سے خود کو مملکتِ پاکستان کا بادشاہ ہی گرداننے میں لگے پڑے ہیں تب ہی اپنی فطرت اور طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیچارے سابق وزیراعظم نوازشریف نے لفظ فریادی کو ہی اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر اُچھالاہے تاکہ جن کی جانب سے یہ لفظ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے متعلق نکلے ہیں وہ اپنا یہ لفظ واپس لیں ایک طرح سے نوازشریف لفظ فریادی کو بتنگڑ بنا کر مُلکی موجودہ سیاست میں ایک ایسی ہلچل پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںجس کی تلاطم خیزی اگلے متوقعہ انتخابات تک جاری رہے اور اِن کی انتخابی فہم اِسی گرما گرمی میںچلتی رہے اور یہ مجھے کیوں نکالا؟ سینٹ الیکشن میںکیو ں ہرایا؟اور فریادی جیسے لفظ کو ہوا میں اُچھالتے ہوئے اپنی کامیابی کوبھارتی اکثریت سے یقینی بنا تے جا ئیں۔

تاہم کچھ بھی ہے؟ اور اَب کوئی کچھ بھی کرلے؟ لاکھ اگلے متوقعہ انتخابات میں اپنی کامیابی کے لئے اِدھر اُدھر سے ہاتھ پاو ¿ں چلالے مگر جب تک مُلک میں جاری احتسابی عمل کو کڑے احتسا بی عمل میں تبدیل ہونے کے بعد اِس سے ماضی و حال اور مستقبل کا ہرحکمران و سیاستدان گزرنہیں جاتا ہے اُس وقت تک نومن تیل ہونے کے باوجود بھی کسی گوری اور کالی رادھا کا ناچنا ممکن ہی نہیں ہے آج جن اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ یہ مُلک کو کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پاک کرنے کے لئے احتسابی عمل کو لے کر چل رہے ہیں اگر یہی بہک گئے یا ماضی کی طرح پھر جدید انداز سے پری بارگین کی شکل میں مک مکا کرلیااور احتسا نی عمل کو کڑے احتسا بی عمل میں تبدیل کرنے سے پہلے ہی ختم کردیا تو پھر مُلک میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی صورت میں کرپٹ عناصرباعزت بن کر آزاد گھومیں گے اورمزے سے پہلے سے زیادہ تیزی سے قومی خزانہ لوٹ کھا ئیں گے اور غریب و شریف عوام جیلوں میںبند ہوکر زندہ درگور ہواکریں گے۔(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com