تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پرانا لطیفہ ہے کہ ایک جاٹ کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا ”ابّا ! اگر بادشاہ مر جائے تو کون بادشاہ بنے گا”۔ جاٹ نے کہا کہ اُس کا بیٹا ۔ بیٹے نے پھر سوال کیا کہ اگر بادشاہ کا بیٹا مر جائے تو پھر کون بادشاہ بنے گا ؟۔ باپ نے جواب دیا ”اُس کا بیٹا”۔ جب بیٹے نے تیسری بار سوال کیا کہ اگر وہ بھی مر جائے تو پھر ۔۔۔۔؟ ۔ تب جاٹ نے جواب دیا ”پُتر ! اگر سارے جہان کے بادشاہ اور اُن کے بیٹے مر جائیں تو پھر بھی جاٹ کا پُتّر بادشاہ نہیں بن سکتا ۔”۔ قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے فرمایا ہے کہ جس طرح سے عمران خاں اور نوازشریف کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے ، لگتا ہے دونوں ہی نا اہل ہو جائیں گے ۔ سیّد خورشید شاہ کا یہ حُسن ظن اپنی جگہ لیکن ہم کہتے ہیں کہ نواز لیگ یا تحریکِ انصاف اقتدار میں آئے نہ آئے ، پیپلزپارٹی اب چراغِ رُخِ زیبا لے کر اقتدار ڈھونڈتی ہی پھرے گی ۔ وہ اگر آمدہ انتخابات میں سندھ کی حکومت ہی بچا پائے تو بڑی بات ہو گی کیونکہ اُس کے پَلّے ”کَکھ” نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے لے کر آصف زرداری تک پیپلز پارٹی ہمیشہ حادثاتی طور پر ہی بر سرِ اقتدار آتی رہی ہے۔
بھٹو مرحوم ایک سازش کے تحت پاکستان کو دو لخت کرکے بَرسرِ اقتدار آئے حالانکہ وزارتِ عظمیٰ شیخ مجیب الرحمٰن کا حق تھا ۔ ضیاء الحق مرحوم نے غلط اندازسے پیپلزپارٹی کو دبانے کی کوشش کی ۔۔ اُن کی حادثاتی موت کے بعد بینظیر بھٹو ہمدردی کا ووٹ لے کر بَر سرِ اقتدار آئیں ۔ یہ ووٹ دراصل بھٹو مرحوم کی قبر کو ملے ۔ بینظیر کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کو ایک دفعہ پھر ہمدردی کا ووٹ ملا اور آصف زرداری ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر تخت نشیں ہوئے ۔ اُن کے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں کرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں منظرِعام پر آئیں کہ اِس سے پہلے دیکھی نہ سُنی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلزپارٹی سکُڑ سمٹ کر صرف سندھ تک محدود ہو کے رہ گئی ۔ سندھ میں بھی اُسے انتہائی مضبوط اپوزیشن (ایم کیو ایم) کا سامنا ہے ۔ اب پیپلزپارٹی بلاول زرداری کو ”بھٹو” بنا کر سامنے لائی ہے لیکن یہ مہرہ پِٹ چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری پیپلزپارٹی کو سہارا دینے کے لیے خود ساختہ جَلاوطنی ختم کرکے پاکستان میں ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں لیکن اُن کی بھی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات 2018ء میں کم و بیش نتیجہ وہی ہو گا جو 2013ء میں تھا۔
رہی کپتان صاحب کی بات تو اُنہوں نے گزشتہ چار سالوں میں سوائے منفی سیاست کے اور کچھ نہیں کیا ۔ سیانے کہتے ہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتا ہے لیکن کپتان تو پتھروں کا سونامی لے آئے۔ اُن کا نشانہ اگر صرف نوازلیگ ہوتی تو پھر بھی کوئی بات تھی لیکن کون ہے جو اُن کی دست برد سے بچا ہو ۔ اُن کی تو حالت یہ ہے کہ
اتنی بھی بَد مزاجی ہر لحظہ میر تم کو الجھاؤ ہے زمیں سے ، جھگڑا ہے آسماں سے
اگر سونامیوں سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ اُن کے کپتان صاحب کے نزدیک کون ہے جو ”پاپی” نہیں تو شاید وہ بھی مُنہ تکتے رہ جائیں۔ اب کپتان کے گردبھی عدلیہ کا شکنجہ کَس رہا ہے۔ تحریکِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق ”رَولا” ڈال رہے ہیں کی میاں نواز شریف نے سازش کرکے کپتان صاحب کو پھنسایا ہے جبکہ خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہم نے مجبوراََ عمران خاں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کپتان صاحب کا دامن داغدار ہے؟ اگر نہیں تو پھر چاہے جو بھی انہیں پھنسانے کی کوشش کرے، وہ صاف نکل جائیں گے اور ایسی صورت میں اُن کا سیاسی قد اور بھی اونچا ہو جائے گا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں دو بنچ ایک ہی قسم کے دو مقدمات سُن رہے ہیں ۔ ایک بنچ جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کر رہے ہیں، عمران خاں کی آف شور کمپنی اور منی ٹریل کی سماعت کر رہا ہے اور اسی قسم کی سماعت میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف ایک تین رکنی بنچ کر رہا ہے ۔ اِس بنچ نے جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو ہر پندرہ دِن بعد بنچ کو اپنی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرتی ہے ۔ یہ جے آئی ٹی اُس وقت متنازع ہو گئی جب حسین نواز نے اُس کے2 ارکان (سٹیٹ بنک کے عامر عزیز اور ایس ای سی پی کے بلال رسول) پر جانب داری کا الزام لگایا۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے حسین نواز کی درخواست پر 29 مئی کی تاریخ مقرر کی اور مقررہ تاریخ پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے پاناما کیس میں جے آئی ٹی کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ۔ حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی والے فرعون بنے بیٹھے ہیں ۔ اُنہوں نے طارق شفیع کو دھمکایا جس کے وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ جس پر جسٹس عظمت سعیدنے کہا ”کوئی فرعون نہیں ، جے آئی ٹی نہ ہم اور نہ وہ جن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے ”۔ بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ”کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہو گا ۔محض شک کی بنیاد پر کسی کو جے آئی ٹی ٹیم سے نہیں نکالا جا سکتا۔”
30 مئی کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور جب وہ 6 گھنٹے بعد جوڈیشل اکیڈمی سے باہر آئے تو اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں اڑھائی گھنٹے تک ایسے ہی بٹھائے رکھا گیا اور پھر سوالات شروع ہوئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ ایک دفعہ پھر عدالت سے رجوع کریں گے۔ 30مئی کو ہی نیشنل بنک کے صدر سعید احمد سے بھی متواتر 13 گھنٹے تفتیش کی گئی۔ اسی دوران جوڈیشل اکیڈمی میں ایمبولینس بھی منگوائی گئی جس پر میڈیا میں شور مچ گیا کہ پتہ نہیں حسین نواز کی طبیہت خراب ہو گئی ہے یا سعید احمد کی ۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ایمبولینس تو ویسے ہی احتیاطاََ منگوائی گئی تھی ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جے آئی ٹی کو ایسی خوف کی فضا قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟۔ تیرہ ، تیرہ گھنٹے کی تفتیش سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جے آئی ٹی تحقیقات نہیں بلکہ کوئی پرانے حساب چکا رہی ہو ۔ قوم کی خواہش ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو اور اگر کوئی مجرم ثابت ہوتا ہے تو اُسے نشانِ عبرت بنایا جائے لیکن جے آئی ٹی نے تفتیش کا جو طریقہ اختیار کیا ہے ، وہ تو محض دوسروں کو زچ کرنے کے مترادف ہے۔
جے آئی ٹی کا اندازِ تحقیق اپنی جگہ پر لیکن روزنامہ جنگ کے انصار عباسی نے جو دھماکہ کیا ہے اُس کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے ۔انصار عباسی نے لکھا ہے ” فاضل عدالت نے ایس ای سی پی ، سٹیٹ بنک اور نیب سے اضافی نام مانگے ۔ اِس دوران جب فاضل عدالت کی ہدایات متعلقہ محکموں تک پہنچیں تو اُن کے اعلیٰ حکام سے کال کرنے والے نے واٹس اَیپ پر رابطہ کیا ۔ کال کرنے والے نے اپنا تعارف رجسٹرار سپریم کورٹ کے طور پر کرایا اور سٹیٹ بنک سے عامر عزیز اور ایس ای سی پی سے بلال رسول کے نام شامل کرنے کے لیے کہا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کال کرنے والے واقعی رجسٹرار سپریم کورٹ تھے یا کوئی اور جو اپنے آپ کو رجسٹرار ظاہر کر رہا تھا ”۔ دُنیا نیوز کے کامران خاں کہتے ہیں کہ یہ مصدقہ خبر ہے کہ رجسٹرار صاحب نے متعلقہ اداروں سے لینڈ لائین پر رابطہ کرکے یہی 2 نام شامل کرنے کو کہا۔ ہمیں اپنی عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور قوم غیرجانبدارانہ تحقیقات چاہتی ہے اِس لیے متعلقہ بنچ کو اِس معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہیے، بصورتِ دیگر قوم کا جے آئی ٹی کی تحقیقات سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔
دوسری طرف کپتان صاحب کو بھی اپنی پاکدامنی کا ثبوت دینا ہو گا۔ الیکشن کمیشن اُن سے پارٹی فنڈنگ کا حساب مانگ رہا ہے جبکہ کپتان صاحب لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں ۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ پارٹی فنڈنگ بیرونی ممالک سے ہوئی ہے تو کپتان صاحب کا سارا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگ جائے گا ۔ دوسرے کیس میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ اُن سے 14 سوالات کا جواب مانگ رہا ہے جن میں یہ سوالات بھی شامل ہیں کہ بنی گالہ کی جائیداد خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے ، منی ٹریل کیسے ہوئی اور نیازی سروسز لمیٹڈ پہلے بنی یا لندن فلیٹ پہلے خریدا گیا ۔ یہاں بھی کپتان صاحب تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ میاں نواز شریف کے خاندان سے تو پچھلے 70 سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں لیکن اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ 14 سالوں کا حساب کہاں سے دوں ۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر عمران خاں اُٹھائے گئے سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہے تو اُنہیں اِس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔