احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر 7سال قیدبامشقت، 2کروڑ50لاکھ ڈالراور ڈیڑھ ارب روپے(تقریباً 5 ارب روپے)کے دو الگ الگ جرمانوں کی سزا سنا دی،عدالت نے سابق وزیر اعظم کو 10سال کیلئے کسی بھی عوامی اور سرکاری عہدے کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے ہل میٹل کمپنی کے تمام اثاثے اور اراضی بحق سرکارضبط کرنے کا حکم دے دیا اور شریک ملزموں حسن، حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جبکہ سابق وزیر اعظم کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کر دیا گیا۔
عدالت میں پڑھ کر سنائے گئے مختصر فیصلے میں قرار دیا گیا کہ العزیزیہ ریفرنس نمبر19 میں کافی ٹھوس ثبوت موجود ہیں ، نواز شریف پر اے ایس سی ایل ، ہل میٹل اور اس سے متعلقہ آمدنی کے حقیقی بینی فشری ہونے کے الزامات درست ثابت ہوئے ، وہ اس مقدمے میں کوئی تسلی بخش اور قابل اعتبار جواب دینے میں ناکام رہے اور ذرائع آمدن ثابت نہیں کرسکے ، انہوں نے بچوں کے نام پرکمپنیاں بنائیں ،جس سے وہ کرپشن اورکرپٹ پریکٹس کے قصوروارہیں، ملزم نے اپنے دفاع میں کوئی ایک بھی شہادت پیش نہیں کی، وفاقی حکومت ہل میٹل کمپنی بحق سرکارضبط کرنے کیلئے سعودی عرب سے رابطہ کرے تاکہ فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں کیس نہیں بنتا، بعدازاں عدالت کی طرف سے جاری کئے گئے 131 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ نواز شریف کو کرپشن اور کرپٹ ہتھکنڈوں کے جرم کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔
اس لئے کیس کے تمام حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 10اور متعلقہ شیڈول کے تحت مجرم قرار دیا جا تا ہے ، نواز شریف منی ٹریل دینے میں ناکام رہے ، مجرم نے اپنے دفاع میں کوئی شہادت پیش نہیں کی ،دستاویزی ثبوت اور الزام کے خلاف کوئی مواد فراہم کیا،مجرم نے جان بوجھ کر تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا جب کہ مجرم کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز بار بار طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے ، قانونی عمل مکمل ہونے کے بعد انہیں اس مقدمہ میں اشتہاری قرار دیا گیا ،جن کی گرفتاری یا پیش ہونے تک ریفرنس کاعدالت میں ریکارڈرکھا جائے گا جس کے بعد ریفرنس کی مکمل سماعت ہوگی ۔سماعت کے دوران گواہ ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل امیگریشن واجد ضیا ،جہانگیر احمد،ملک تواب معظم ،یاسرشبیر چودھری ،مسزسدرہ محمود،محمد تسلیم خان اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے اور بیان قلمبندکرائے ،جن پر جرح ہوئی اور نوازشریف بے نامی دارپارٹنرثابت کئے گئے ،نوازشریف1981سے 2017تک پنجاب کے وزیر خزانہ ، وزیر اعلٰی اور وزیراعظم کے عہدوں پر رہے۔
عوامی دفاترکا استعمال کیا ،2010سے 2017کے دوران ان کے بینک اکاونٹس میں بھاری رقوم کی منتقلی ہوئی، فیصلے کی ایک کاپی مجرم کو مفت فراہم کر دی گئی ہے ، انہیں مطلع کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ فیصلے سے خوش نہیں تو احتساب آرڈیننس کے سیکشن 32 اے کے تحت 10روز کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں،عدالتی فیصلے کے موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے انہیں اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کرنے کی استدعا کی ،خواجہ حارث نے کہا نواز شریف دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کے ڈاکٹرلاہور میں ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے اس کی مخالفت کی ، اس موقع پر نوازشریف کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر میں تلخ کلامی ہوگئی جس پر فاضل جج نے کہا درخواست پر فیصلہ عدالت کا استحقاق ہے کہ ملزم کو کس جیل میں بھیجاجائے ؟ فیصلہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر ہوگا،بعد ازاں عدالت نے نواز شریف کی اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی درخواست منظور کرلی، کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ اعجاز اصغر نے بتایا نواز شریف کو قانون کے مطابق تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی، احتساب عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔
خار دار تار لگا کر راستے سیل کر دیئے گئے ،احتساب عدالت کے اطراف ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ کمرہ عدالت میں نواز شریف کو کلوز پروٹیکشن یونٹ سکیورٹی فراہم کی گئی، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے رینجرز بھی موجود رہی جبکہ بم ڈسپوزل سکواڈ نے عدالت کے اطراف چیکنگ کی۔سپریم کورٹ نے پناما لیکس میں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر سابق وزیراعظم اور ان کے بچوں کیخلاف تین ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی پندرہ ماہ تک سماعت ہوئی، نواز شریف کی 165 بار احتساب عدالت میں پیشی، پندرہ بار اڈیالہ جیل سے عدالت لایا گیا۔سپریم کورٹ کے پناما کیس میں 28 جولائی 2017ء کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنس 8 ستمبر 2017ء کو احتساب عدالت میں دائر کئے۔
مسلم لیگ ن کے قائد 26 ستمبر 2017ء کو پہلی بار احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ 18 دسمبر 2018ء کو آخری سماعت تک ان کی پیشیوں کی تعداد 165 ہو گئی۔العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں۔ نیب نے العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ میں 16 گواہان پیش کئے۔نواز شریف نے اپنی صفائی میں ایک بھی گواہ پیش نہیں کیا۔ احتساب عدالت میں ریفرنسز کی پہلی 103 سماعتیں جج محمد بشیر نے کیں۔ جج ارشد ملک نے 80 سماعتوں کے بعد دونوں ریفرنسز پر فیصلہ محفوظکیا تھا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا، نواز شریف کو سخت سکیورٹی حصار میں لاہور ائیرپورٹ سے لایا گیا، سابق وزیراعظم کو خصوصی پرواز سے لاہور پہنچایا گیا تھا۔
کوٹ لکھپت جیل کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے، جیل کے باہر کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی، خواتین کارکن بھی کوٹ لکھپت جیل پہنچیں اور قائد کے حق میں نعرے بازی کی۔ کوٹ لکھپت جیل بیرک نمبر 1 میں آصف علی زرداری نے قید کاٹی، نواز شریف کو بھی بیرک نمبر 1 میں رکھا جائے گا، ماضی میں عمران خان بھی ایک دن بیرک نمبر 1 میں گزار چکے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو الگ الگ بیرکوں میں رکھا جائے گا۔ محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا ہے جیل حکام کو سکیورٹی سمیت دیگر احکامات جاری کئے گئے ہیں، قانون کے مطابق سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔پنجاب حکومت نے نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں بیٹر کلاس سہولیات کی اجازت دیدی، نواز شریف کی درخواست پر پنجاب حکومت نے بیٹر کلاس سہولیات دینے کا فیصلہ کیا۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے نوٹیفکیشن کے مطابق نواز شریف کو بیٹر کلاس کے تحت جیل کی بیرک میں ذاتی بستر، من پسند لباس، ٹی وی اور اخبار کی سہولیات بھی میسر ہوں گی۔سابق وزیر اعظم کو گھر سے کھانا منگوانے اور ذاتی برتن استعمال کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔
کرسیوں کے ساتھ ایک میز، ٹیبل لیمپ سمیت دیگر ضروری اشیا بھی بیٹر کلاس سہولیات میں شامل ہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ چیلنج کرنے کے لیے تیاری شروع کردی جبکہ نیب نے بھی سابق وزیر اعظم کی فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تیاری شروع کر دی۔نواز شریف اور قومی احتساب بیورو نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی تیاریاں شروع کر دی، نواز شریف کے وکلاء اور نیب حکام نے عدالت سے مقدمے کا مصدقہ ریکارڈ حاصل کر لیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کو جبکہ نیب فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کو چیلنج کرے گا، دونوں فریقین 10 روز کے اندر ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے۔
نواز شریف کے خلاف فیصلہ صرف ٹریلرہے ،حقیقت میں قوم سب کا احتساب دیکھنا چاہتی ہے۔ سب کا بلاتفریق احتساب ہوناچاہیے تاکہ کسی ایک فرد اور خاندان کے احتساب کا تاثر پیدا نہ ہو۔ اپوزیشن اور حکومت میں جتنے افراد پر کرپشن کا الزام ، بینک قرضے معاف کروانے اور بیرون ملک ناجائز جائیداد اور بینک اکائونٹ رکھنے میں ملوث ہیں، ان کا بے لاگ اور تیز رفتار احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حقیقی احتساب ہوگیا تو ایوان کرپٹ لوگوں سے خالی ہو جائیں گے۔