تحریر: سید انور محمود سابق وزیراعظم نواز شریف کا اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر بذریعہ جی ٹی روڈ مکمل ہوا، ان کے جاں نثاروں نے مختلف مقامات پربکرے صدقہ کئے جبکہ اسی سفر میں لالہ موسیٰ کے قریب ایک بارہ سالہ بچے حامد کی بھی قربانی دی گئی۔ بچے کےوالد کو دل کا دورہ پڑا اور لواحقین اوردوسرئے لوگوں نے مشتعل ہوکر جی ٹی روڈ پر ٹائر جلائے اور شدید احتجاج کیا۔ بچے کی تدفین مقامی قبرستان میں کردی گئی ، نماز جنازہ جی ٹی روڈ پر ادا کی گئی جس میں ایک وزیر مملکت اور شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ نواز شریف کو اطلاع ملی تو شاید سوچا ہوگا کہ ابھی دکھ کا اظہارکیا کرنا۔ باپ کو دل کا دورہ پڑا ہوا ہے وہ ہسپتال میں ہوگا، ماں بھی نیم پاگل ہوگئی ہے تو اس سے مل کر بھی کیا حاصل۔ اگر ابھی بچے کے گھر جاونگا تو لاہور تک ریلی کے پہنچنے میں تاخیر ہو جائے گی۔ یوں بھی بچہ تو مر ہی گیا ہے، ان سب باتوں سے زندہ تھوڑی ہو جائے گا، یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ ان سب سے اہم یہ ہے کہ اگلے پڑاو پر پہنچوں اور اپنا دلپسندکھانا کھاوں۔ نواز شریف کے پاس خوشامدیوں کی کمی نہیں ہے حسب دستور سب اپنے کام پر لگ گئے جن میں سابق دختر اول مریم نواز اوران کے شوہر کیپٹن صفدر بھی شامل تھے۔ بچہ بہت خوش قسمت تھا ، وقت کے فرعنوں کیپٹن صفدر، مریم نواز، سعد رفیق، شہباز شریف اوررانا ثناء اللہ نے فرداً فرداً اس بچے کو شہید قرار دیا اور پوری قوم کو بچے کی شہادت کی بشارت پہنچائی اور بتایا کہ بچہ جمہوریت کے لیے شہید ہوگیا۔
نواز شریف جمہوریت کی اس ریلی کو ایک منٹ بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ خود اس بچے کے گھر جاینگے اور کچھ مالی امداد بھی کرینگے۔ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد لاہور واپس آتے ہوئے سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل مسلم لیگی کارکنوں کا ایک بڑا قافلہ بھی تھا جس نے ان کے ساتھ جی ٹی روڈ پر سفر کیا۔ خبر یہ دی گئی کہ نواز شریف کے قافلے میں شامل ایلیٹ فورس کی گاڑی تلے آکر 12سالہ بچہ خالد جاں بحق ہوگیا۔ حامد جوجماعت ششم کا طالبعلم تھا، لالہ موسیٰ میں تین دن سے نواز شریف کے جلوس کا انتظار کر رہا تھا۔ جی ٹی روڈ کے درمیان میں ڈیوائیڈر پر کھڑا تھا۔ اس مہم جوئی میں اسے یہ لالچ تھا کہ شاید نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے۔ حامد سے ایک گاڑی ٹکرائی، اس سے پہلے کہ حامد سنبھلتا دوسری گاڑی کے ٹائروں کے نیچے آ کر شدید زخمی ہوگیا، پروٹوکول کی یہ گاڑیاں رکی نہیں۔ جلوس میں 11 جدید ایمبولینسز تھیں لیکن وہ صرف وی آئی پیز کےلیے تھیں ۔ میڈیا کی ایک گاڑی نے بریک لگا کر جلوس کو روکا اور بچے کو ایک رکشے پر ہسپتال روانہ کیا گیا جہاں بچے کا انتقال ہوگیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ وہ شریف خاندان کی گاڑیاں تھیں جنہوں نے بچے کو کچلا،بچے کو کچل کر اب نام ایلیٹ فورس کی گاڑی کا لگایا جا رہا ہے۔ اعتزاز احسن کے اس بیان کو تقویت ایسےملتی ہے کہ لائیو ریکارڈنگ کے باوجود پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی کا نمبر، گاڑی کا رنگ اور ماڈل انہیں کچھ نہیں معلوم اور ڈرائیور کون تھا یہ بھی نہیں معلوم۔ مقدمہ تو درج ہوگیا ہے لیکن اسی نامعلوم فرد کے خلاف جس پر پہلے ہی لاکھوں مقدمے درج ہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ بچہ ایلیٹ فورس کی گاڑی تلے آکر جاں بحق ہوا ہے تو پولیس کےلیے تو یہ کام آسان تھا کیونکہ ریلی میں موجود ایلیٹ فورس کی گاڑیوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوگی اور ایلیٹ فورس کی گاڑیوں کا پورا ریکارڈ بھی موجود ہوگا۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ آقاوں کو کیسےبچایا جائے۔
شاید نواز شریف اس ریلی کے زریعے یہ چاہ رہے تھے کہ انہیں کچھ لاشیں مل جایں ، وہ تو انہیں یوں نہ مل سکیں کیونکہ جس صوبہ میں وہ ریلی نکال رہے تھے وہاں کی تماتر زمہ داری انکے بھائی شہباز شریف کی ہے جوپہلے ہی ماڈل ٹاون سانحہ میں ملوث ہیں۔ لیکن نواز شریف کو کسی نہ کسی شہید کی ضرورت تھی، یہ مسئلہ انکے گھر داماد کیپٹن صفدر نےایسے حل کیا کہ ایک بیان میں کہا کہ ’’جب پاکستان بنا تھا تو سات لاکھ جانیں قربان ہوئی تھیں، حامد نامی بچہ بھی پاکستان کیلئے نکلا تھااور شہید ہوگیا‘‘، بقول کیپٹن صفدر حامد وہ پہلا بچہ ہے جو جمہوریت کی راہ میں شہید ہوا ہے، شاید ان کا یہ بیان سیدھا بچے کے باپ کے دل میں جالگا ہے۔سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نوازنےبچے کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی قیادت کو فوری طور پر متاثرہ خاندان کے پاس پہنچ کر تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعدرفیق نے کہا کہ گاڑی کی ٹکر سے شہید ہونے والے بچے کے خاندان سے ہمدردی ہے،ہمارے ساتھی اس شہید بچے کے گھر گئے ہیں۔ جواب میں سوشل میڈیا پر بہت سے جذباتی اور غلط جملے لکھے جارہے ہیں ،جن میں کیپٹن صفدر اور مریم نواز کے بچوں کے لیے بد دعائیں بھی لکھی گیں ہیں جو غلط ہیں اور اللہ نہ کرے قبولیت حاصل کریں۔ جس ملک میں بچوں کی ٹکڑوں میں بٹی لاشیں نالیوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر مل رہی ہوں۔ جہاں جنسی تشدد معمول ہو۔ ہزاروں بچے اغوا ہوجاتے ہیں تو اس بچے کے لواحقین کو کون انصاف کو دلائے گا۔
شہید بھی کیا اصطلاح ہے۔ پشاور کے آرمی اسکول میں ہونے والی دہشتگردی سے 132 بچے جاں بحق ہوئے تھے لیکن زمہ دار اپنی ناکامیابی کو قبول کرنے کے بجائے بچوں کی شہادت پر زیادہ زور دیتے رہے، جس پر ایک بچے کے والد نے زمہ داروں کو منہ توڑ جواب دیا تھا کہ میں نے بچے کو پڑھنے بھیجا تھا شہید ہونے کے لیے نہیں ، لالہ موسیٰ میں گاڑی تلے کچلے جانے والا حامد بھی نواز شریف کی ریلی کا تماشہ دیکھنے آیا تھا شہید ہونے کے لیےنہیں۔ نواز شریف کے خوشامدیوں نے بچے کو شہادت کے عہدے پر فائز کردیا ہے تھوڑئے دن بعد اس کے لواحقین کا منہ بند رکھنے کےلیے مالی امداد بھی کردی جائے گی۔ اگر سابق وزیر اعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ انکی ریلی کامیاب رہی ، تو پھر یہ بھی کہنا مناسب ہے کہ لالہ موسیٰ میں گاڑی تلے کچلے جانے والے بچے حامدکی موت کے زمہ دار بھی نواز شریف ہیں، کیا نواز شریف اس بات کو تسلیم کرینگے۔