تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ رواں سال کاآغازسیاسی جنگ سے شروع ہوا ،اس با ت میں کوشک نہیں کہ ”ن ” لیگ کی قیادت کو اپنی ہی دوست کی وجہ سے آج مختلف بحرانوں کا سامنا ہے یہ ملک بھر میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف بحال ہو سکتے ہیں قانون بھی ان کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن ان کے قریبی 28ایم این اے اس بات سے خوش نہیں ان میں کچھ وزیر بھی شامل ہیں ۔ سینیٹ الیکشن میں کسی بھی قومی ادارے کے سربراہ نے مداخلت نہیں کی پھر بھی ”ن” لیگ ہار گئی ۔اپنی ناکامی غفلت کو چھاپنے کیلئے وزیراعظم سمیت متعدد ”ن” لیگی رہنمائوں نے چیئرمین سینیٹ ، عدلیہ سمیت قومی اداروں پر تنقید کا سلسلہ شروع کررکھاہے جس کا نتیجہ عام الیکشن قبل ہی سامنے آجائے گا ۔میاں نوازشریف جہاں بے شمار خوبیاں ہیںوہاں چند خامیاں بھی ان کے خمیر میں پنہاں ہیں۔ ان میں دوست اور دشمن کی پہنچان میں ان کی کچھ حسیں بہت کمزور ہیں جس کی وجہ میاں صاحب بروقت اور درست فیصلہ کرنے میں تاخیر کا شکاررہتے ہیں۔دوست اور دشمن کے درمیاں امیتاز کرنے کیلئے شاہد ان کو کسی مفیداور بااثرحکیم کی ضرورت ہے۔
اگر ”ن” لیگ قیادت کو پتہ ہو کہ دوستی کیا ہے ؟ دوستی کی تعریف کرنا یا اْسے لفظوں میں بیاں کرنا شاید اب تھوڑا سا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ پہلے کبھی دوستی کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو جھٹ سے جواب ملتا تھا کہ دوستی ایک خوبصورت احساس کا نام ہے ، دوستی اعتماد کا نام ہے ، دوستی دکھ و سکھ میں کام آنے کا نام ہے ، دوستی ساتھ نبھانے کا نام ہے، کبھی دوستوں کو پھولوں سے تشبیح دیتے تو کبھی سمندر کی گہرائی سے یہاں تک کہ دوستی کو کبھی بار زندگی کا نام بھی دیا گیا وغیرہ وغیرہ لیکن اب کے دور میں اگر کسی سے پوچھا جائے کہ دوستی کیاہے تو لوگ دوستی کو خود غرضی ، لالچ ، فریب ، جھوٹ ، دھوکہ اور مطلب پرستی کا نام دیتے ہیں جو کہ اب کسی حد تک صحیح بھی ہوتا جا رہا ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ دنیاوی مقاصد اور دنیاوی حوس کو پورا کرنے کے لیے جو دوست بنائے جاتے ہیں وہ زیادہ دیر تک دوستی کو نبھا نہیں پاتے۔ ایسے دوستوں کے درمیان نہ محبت ہوتی ہے ، نہ وفا ، نہ ساتھ نبھانے کا حوصلہ اور نہ ہی مشکل حالات سے نمٹنے کی ہمت ہوتی ہے۔ہم کتنی آسانی سے کے آگے دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے آیا کہ وہ شخص دوستی کے قابل ہے بھی کہ نہیں۔
” سچا اور مخلص دوست وہی ہوتا ہے جو اپنے دوست میں خامیاں نہ ڈھونڈے بلکہ اْس کی خوبیوں کو سراہے اور اْس کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
ان سب باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عملا معاشرے کے لئے افسانوی دوستی بے سود بلکہ مضرت رساں ہے اور اس طرح کی دوستی سے گریز کرنا مناسب ہے۔ ہر دانش مند نے دوستی کی یہی تعریف کی ہے۔ جیسے مارک ٹوئن کہتے ہیں کہ تقریبا سبھی آدمی آپ کی حمایت کریں گے اگر آپ حق پر ہیں۔ اس لئے دوست کا اصل فریضہ ہے کہ وہ آپ کی اس وقت حمایت کرے جب آپ غلطی پر ہوں، یا جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے۔
بے وقوف کی ایک اہم خصوصیت ہوتی ہے ہٹ دھرمی۔ اسے کسی شرمندگی، خجالت کا احساس نہیں ہوتا اور باوجود تمسخر کا نشانہ بننے کے اپنی روش پر گامزن رہتا ہے۔ بے وقوف حالانکہ خلوص سے بھرپور ہتا ہے مگر اس خلوص کا کوئی فائدہ نہیں جو حماقت سے بھرا ہو، جیسا کہ ایک بندر نے مکھی اڑانے کے سلسلے میں ناک ہی اڑادی۔بزرگوں کی یہی پہچان تھی ہمارے اسلاف کی کہ وہ لوگوں کو ان کے برا ہونے پر چھوڑتے نہیں تھے بلکہ ان کی خبر گیری کرکے ان کے حق میں اللہ سے دعا کرتے تھے۔ تو ہم کیوں اس بات کو نہ اپنائیں؟ ہم بھی کوشش کریں گے کہ جب بھی کوئی ایسی خطا کرے گا تو ہم اس کو تنہا نہیں چھوریں گے بلکہ اس کے لئے دعا کرکے اور اس کو سمجھا کر اپنے دوست ہونے اور سب سے بڑا حق مسلمان ہونے کا ادا کریں گے۔ میاں نوازشر یف کے گردایک مفاداتی ٹولہ ہمیشہ سے موجودرہاہے جس کے باعث قومی سطح اور بین الاقومی فیصلے کرنے میں وہ اجلت سے کام لیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ سے مشکلات ومصائب کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں ایسے مفاداتی ٹولے سے چھٹکار احاصل کرنے کیلئے انہوں سیاسی بصیرت اور سیاسی تجربہ سے کا م لینا ہوگا ۔ورنہ نتائج کے وہ خودذمہ دار ہوں گے۔