عالمی مالیاتی ادارے ”آئی ایم ایف” کا ایک وفد اپنے قیام کے دوران اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کے دوران حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا تا کہ مالیاتی فنڈ سے قرض کی اگلی قسط جاری ہو سکے۔ دریں حالات حکومت نے اقتصادی بہتری کے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران مسلسل یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ غیر ملکی انحصار ختم کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اب کشکول گدائی توڑ دیا جائے گا۔
برسر اقتدار آنے کے بعد وہ اب تک ایسا کوئی انقلابی اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس حکومت میں ہونے کے باوجود ان کا اندازِ گفتگو نعروں پر ہی مشتمل ہے۔ وہ اپنے حالیہ دورہء امریکہ کے دوران بھی اس طرز تخاطب سے گریز نہیں کر سکے۔ واشنگٹن میں گزشتہ ہفتے بزنس کمیونٹی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لئے جنت نظیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں چند ہی ملک ہیں جو سرمایہ کاری کے لئے جغرافیائی اور لیبر کے حوالے سے بہتر مواقع فراہم کر سکیں۔ اسی دورے کے دوران انہوں نے اپنے پبلک بیانات میں یہ بھی بار بار اعلان کیا کہ پاکستان کو امداد نہیں تجارت کی ضرورت ہے۔یہ وہی نعرہ ہے جو پانچ برس تک سابق صدر آصف علی زرداری بھی لگاتے رہے ہیں۔ جس طرح سابقہ حکومت کی بے بنیاد باتوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اسی طرح نواز شریف کی بے وزن باتیں بھی بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ نجانے پاکستانی لیڈر یہ باور کرنے میں کیوں شرم محسوس کرتے ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان آنے کے لئے ازخود حالات کا تجزیہ کر کے فیصلہ کریں گے۔ وہ کسی سیاسی لیڈر یا سربراہِ حکومت کی باتوں کی وجہ سے یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ انہیں کہاں سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف امریکہ میں چار روزہ قیام کے دوران گرمجوش خطابات کے جوہر تو دکھاتے رہے لیکن واپسی پر ان کی جیب میں وہی 330 ملین ڈالر تھے جو امریکہ، کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں جاری کرنے پر دورے سے قبل ہی آمادہ ہو گیا تھا۔ یا یہ اعلان تھا کہ ایبٹ آباد حملے کے بعد رکی ہوئی امریکی امداد بحال کر دی جائے گی۔ یہ صورتحال کسی طرح بھی خوشگوار نہیں ہے۔ لیکن اس سے فرار بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی حکومت عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے اور بے بنیاد خواہشوں کے محل تعمیر کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کے اعتبار سے سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ملک میں برسر اقتدار اہم سیاسی رہنمائوں کی اپنی دولت ملک سے باہر ہے۔ ان میں شریف خاندان سرفہرست ہے۔ ان کا خاندان سعودی عرب اور برطانیہ میں وسیع کاروبار چلا رہا ہے۔ ایک ایسا لیڈر پھر کس منہہ سے دوسروں کو اپنی دولت پاکستان لانے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ اور عالمی سرمایہ کار کیوں کر ایسے لیڈروں کی باتوں پر اعتماد کریں گے۔ پاکستانی معیشت کی اصلاح کے لئے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے اہم سیاسی فیصلے بھی کرنا ہوں گے تا کہ ملک کی صورتحال کے حوالے سے شکوک و شبہات ختم ہو سکیں۔ ان فیصلوں میں سے ایک معاملہ دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کی بحالی ہے۔
Nawaz Sharif
میاں نواز شریف کی حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے 5 ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن ابھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کو بھی اب کئی ماہ بیت چکے ہیں لیکن حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ میں کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔
اس کے برعکس غیر سرکاری قوتوں کی طرح حکومت بھی ڈرون حملوں کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے اپنی اصل ذمہ داری سے گریز کرتی چلی آ رہی ہے۔ اب یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب تک پاکستان میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہو گا تو وہ وہاں پر کیوں کر سرمایہ کاری کا تصور بھی کر سکے گا۔ حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی مسلسل اپنا سرمایہ دیگر ملکوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کے بعد اب بنگلہ دیش اور ملائشیا جیسے ملک پاکستانی سرمایہ کاروں کے لئے دلکشی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے انرجی بحران بھی اہم ترین معاملہ ہے۔ جس ملک میں نہ زندگی محفوظ ہو اور نہ انرجی مہیا ہو، وہاں پر کوئی سرمایہ لا کر آخر کیا کرے گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں سینکڑوں چھوٹے بڑے کارخانے اور لاکھوں چھوٹے درجے کے کاروبار محض اس لئے بند پڑے ہیں کہ ملک میں نہ تو بجلی میسر ہے اور نہ ہی گیس فراہم ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس عالمی مالیاتی ادارے کی ضرورتیں اور تقاضے پورے کرنے کے لئے بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے سرکاری آمدنی میں اضافہ دکھانے اور سبسڈی کم کرنے کے نقطہء نظر سے بجلی کے علاوہ فیول کی مختلف اقسام پر دھڑا دھڑ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔بجلی کے بحران کے حوالے سے موجودہ حکومت نے ایک سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم پرائیویٹ سیکٹر کے سرکلر ڈیبٹ کو ادا کرنے کے لئے صرف کر دی۔ اس مد میں اتنی خطیر رقم ادا کرنے کے باوجود بجلی کی پیداوار یا فراہمی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ اب خبروں کے مطابق ایک بار پھر یہ گردشی قرضے بڑھنے شروع ہو گئے ہیں اور ان کا حجم چند مہینوں میں ہی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔
موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے قرضے ختم کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود قرض کی اقساط ادا کرنے کے نام پر اسی ادارے سے مزید ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرض لینے پر مجبور ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی بے عملی اور غیر مستحکم رویہ صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔میاں نواز شریف کی حکومت اہم سیاسی اور اقتصادی فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ایک طرف دہشت گردی کے مسئلہ پر قومی اتفاق رائے کے باوجود کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی تو دوسری طرف بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے کوئی براہ راست ٹیکس لگا کر امیر طبقہ کو قومی ذمہ داری پورا کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ حالانکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ جب تک ٹیکس دینے والوں کا دائرہ وسیع نہیں کیا جائے گا اس وقت تک پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی۔
اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قومی خسارے میں کمی، برآمدات میں اضافے اور انتظامی معاملات میں بہتری کے بغیر ملک کی معاشی حالت اور عوام کی مالی ابتری ختم نہیں ہو سکتی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس قسم کا کوئی دلیرانہ فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں دکھا پائی۔ اس کے برعکس مواقع اور امکانات کی عدم موجودگی میں جس طرح عوام پر مہنگی بجلی اور فیول کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے، اس سے ان کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ حالات سنگین سماجی بحران اور سیاسی ہیجان کو جنم دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔حکومت کو بہت جلد یہ باور کرنا ہو گا کہ وہ بہت دیر تک محض اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات، آئی ایم ایف کے قرضوں، غیر ملکی امداد اور بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ملک کو نہیں چلا سکتی۔ اب وقت ہے کہ دیانت داری سے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اہم فیصلے کئے جائیں۔ محض ملک کے عوام کو کڑوی گولیاں کھانے کا مشورہ دینے اور اس پر مجبور کرنے سے ابتری کی صورت ہی پیدا ہو گی۔