تحریر : ایم آر ملک پاکستانی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اگر سیاست کے سینے میں دل ہوتا تو یٰسین آزاد جیسے نظریاتی ورکروں کو مفادات کی قربان گاہ پر قربان نہ کیا جاتا مشرف کی آمریت کے سامنے میں نے یٰسین آزاد کو بے دست و پا لڑتے دیکھا شاہراہوں پر قیادت کی کال کے بغیر احتجاج ،پولیس کی لاٹھیاں ،ڈنڈے ،دفعہ 144کے نفاذ میں بندوق کی نالی سے نکلنی والی گولی سے بے خوف معرکہ آرائی یٰسین آزاد جیسے ورکروں کا ہی طرہ امتیاز ہے جانے کیوں پارٹی کے ایسے نظریاتی ورکر وفائوں کی آخری حدوں پر کھڑے ہوتے ہیںجہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے شاید میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف کے ریکارڈ میں میاں یٰسین آزاد کی وفائوں کا کوئی ریکارڈ بھی ہے یا نہیںیا اس کی کوئی حیثیت ہے بھی تو محض نعرے لگانے والے کسی ناآشنا نوجوان جتنی اس نظر اندازی کے باوجود اپنی قیادت کیلئے حریفوں سے لڑتا ہے جھگڑتا ہے اور کبھی کبھار مارنے اور مرنے پر تل جاتا ہے مگر نظریات کے بے آب و گیاہ صحرا میں ان ورکروں کی مسافت کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی۔
ایسے لوگ صرف اپنی قیادت کی نظر التفات کے بھوکے ہوتے ہیں کل جب میں اس سے ملا تو سردار قیصر خان کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ فصلی بٹیروں کا کام تو اپنے مفاد کی منڈیر کی تلاش ہوتا ہے اور کہیں ایسے افراد کو مفاد کی منڈیر ملی اسی پر جابیٹھے مگسی سردار کو جب اپنی آبائی یونین کونسل میں شکست فاش ہوئی تو واڑہ سہیڑاں کے سردار شہاب خان نے اس کا ہاتھ تھاما اور تحصیل ناظم چوبارہ کی کرسی پر لابٹھایا یہ مشرف کا دور تھا شہاب خان کا یہ فعل عوامی مینڈیٹ کی توہین تھی عوامی عدالت سے ایک شکست خوردہ شخص کو عوامی فیصلے کو بائی پاس کرکے عوام پر بزور جبر مسلط کر دینا عوام کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ تھا پھر عام انتخابات کا اعلان ہوا تو سردار قیصر عباس مگسی نے محسن کشی کا جو کردار ادا کیا اس کی مثال ڈھونڈنے سے شاید نہ ملے شہاب الدین سیہڑ نے جب حلقہ پی پی 264میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو قیصر خان اس کے مد مقابل آکھڑا ہوا اس الیکشن میں محسن کو شکست اور محسن کش کی جیت ہوئی یہ 2008کا الیکشن تھا پھر جب 2013کے الیکشن کا اعلان ہوا تو شہاب الدین سیہڑ اس حلقہ کو خیر باد کہہ چکے تھے مگر سردار قیصر خان میدان میں اُترا تو اس کے مد مقابل غلام عباس بپی اور بشارت رندھاوا نے الیکشن لڑا یہ بات میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے سوچنے کی ہے کہ انہیں ٹکٹ مشرف اقتدار میں مزے لوٹنے والے کو نہیں قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والے کسی ورکر کو دینا چاہیئے تھی۔
یٰسین آزاد جیسے نظریاتی ورکروں نے ہمیشہ قیادت کے ایسے ناپسندیدہ فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جو سراسر نظریات کی مخالف سمت میں ہوئے بلدیاتی الیکشن میں بھی چوبارہ کے سردار کا کردار یہی رہا کہ ان افراد کی الیکشن مہم چلائی جو پارٹی ٹکٹ ہولڈر ز کے مخالف تھے رانا خورشید احمد ،رمضان جانی ،میاں یاسین آزاد کا ماضی آج بھی سردار کی ن لیگ مخالفت کا گواہ ہے رانا خورشید جیسے ورکروں کی الیکشن مہم ڈاکٹر امتیاز سہیل جیسے عوام دوست افراد نے چلائی ن لیگ کے نظریاتی ورکروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں سردار کے دور کے تحفے ہیں۔
نظریاتی ورکر کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو اپنی حکومت اور اپوزیشن میں وہ ہمیشہ زیر عتاب ہوتا ہے بھٹو کے نظریاتی ورکر محض اس لئے بھٹو کے نام کی مالا جپتے ہیں کہ ایک عام ورکر کی عزت نفس کو بھٹو نے بحال کیا علاقہ کا اے سی ،ڈی ایس پی ،تھانیدار بھٹو دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی کلاس سے زیادہ ورکر کلاس کی بات کو اہمیت دیتے محترمہ بے نظیر 88میں جب واپس آئیں تو اپنے والہانہ استقبال کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں ورکروں کے جذبات پر بند باندھنا ناممکن ہوتا ہے تلہ گنگ کے ایک ورکر نے امریکہ کا جھنڈا جلا دیا ورکر کو کیا خبر کہ اس کی قیادت امریکہ سے ڈیل کے تحت واپس آئی ہے اس نے جھنڈا جلا دیا پھر اسے پارٹی چھوڑ دینے کی شکل میں سزا ملی۔
جدہ جلاوطنی کے بعد ن لیگ کی قیادت کے پاس یہ سنہری موقع تھا کہ وہ نظریات اور مفادات میں سے نظریات کا انتخاب کرتی ان ورکروں کو معاشی اور مالی طور پر مضبوط کرتی جس قیادت کے نام کی مالا جپتے ہوئے جیل گئے مگر قیادت نے مشرف کے وہ سارے ساتھی جنہوں نے مشرف دور اقتدار میں نظریاتی ورکروں پر ناجائز مقدمات کی بساط بچھا دی مفادات کی شکل میں ان کا انتخاب کرلیا اور نظریات کو ٹھوکر ماردی جس کا نتیجہ آج ایک بار پھر سامنے ہے کہ اقتدار کے بھوکے اور رسیا پارٹی چھوڑ کر اقتدار کی طرف بھاگ رہے ہیں مگر پارٹی کے دور ابتلا میں آج بھی رانا آر ایم یوسف ،میاں یٰسین آزاد ،میاں فاروق ،رانا خورشید جیسے نظریاتی ورکر پارٹی کی رگوں میں آکسیجن فراہم کر رہے ہیں آج بھی وقت کی راسیں میاں شہباز شریف ،میاں نواز شریف کے ہاتھوں میں ہیں کہ وہ ہر ضلع سے نظریاتی ورکروں کی فہرست طلب کریں اور ان کی مالی امداد کرتے ہوئے ان کے اکائونٹ میں بھاری رقوم جمع کرائیں اور ٹکٹیں بھی نظریاتی ورکروں کو دیں ورنہ نظریات اور مفادات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پارٹی کا شیرازہ بکھیر دے گی۔