جب سے میاں نواز شریف بیمار ہوئے ہیں میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایسے ایسے لطیفے جنم لے رہے ہیں جنھیں پڑھ کر کبھی ہنسی ا تی ہے کبھی غصہ ،کبھی شرم آتی ہے تو کبھی حیرت ہوتی ہے ۔بے شک زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہے لیکن جس طرح کی سیاست اس بیماری پر کی گئی اس پر اب قوم بھی شرمسار ہے اور بے اعتبار ہے پہلے تو مریم بی بی نے میڈیکل ہسٹری میں نئی نئی اختراعات ایجاد کر کے قوم کو بیوقوف بنائے رکھا اور اباجان کو لندن بھیجنے میں کامیاب ہو گئیں چچا جان بھی پلٹ کر واپس نہ آئے حالانکہ وہ ضمانتی تھے جس مریض کو چودہ ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے جس پر سروسز ہوسپٹل میں چوبیس ڈاکٹر تعینات تھے (یہاں میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتائوں کہ ڈاکٹروں کا وہ پینل تقریبا محبوس تھا اس پینل میں ہمارے ایک بہت قریبی عزیز بھی شامل تھے اس بات کا علم یوں ہوا کہ ان کو اپنی بیگم سے فون پر بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی وہ اپنی انتہائی قریبی عزیزہ کی شادی میں شرکت نہ کر سکے اور جب تک میاں صاحب کا جہاز فلائی نہیں کر گیا وہ محبوس ہی رہے ) اور جہاز میں کیا ہوا اس کے مناظر ساری قوم دیکھ چکی ہے چند گھنٹوں کا مہمان مریض جس کی زندگی کی ضمانتیں مانگی جا رہی تھیں ایک دم بھلا چنگا ہو گیا اور اب تک بغیر علاج کے مزے سے جی رہا ہے۔
ابھی کی خبر شہباز شریف فرماتے ہیں نواز شریف کے معالج ڈاکٹر عدنان پر حملہ اس لیے کروایا گیا کہ نواز شریف کے علاج میں رکاوٹ ڈالی جا سکے میں قربان جائوں اس منطق کے ،اگر ڈاکٹر عدنان ہی وہ مسیحا ہے جس کے علاج سے ظل الہی صحت یاب ہو سکتے ہیں تو پھر لندن جانے کی ضرورت کیا تھی وہ تو یہاں بھی دستیاب تھے اگر کچھ ایسے ٹیسٹ تھے جو صرف لندن کی لیبارٹریوں میں ہی ممکن تھے تو وہ ٹیسٹ ابھی تک کروائے کیوں نہیں گئے ؟ساڑھے تین ماہ میں نہ کوئی ٹیسٹ ہوا نہ علاج کہ جس کی رپورٹ حکومت کو بھیجی جا سکے اب جونہی میاں صاحب کو واپس بلانے کی بات ہوئی ڈاکٹر عدنان پر مبینہ حملے کی کہانی سامنے آگئی آج ہی اخبار میں رانا ثنا اللہ کا بیان چھپا ہوا تھا جس میں انہوں نے فرمایا میں امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے میاں صاحب کی ملاقات کی تردید نہیں کرونگا ،یقینا وہ اس خبر کو میاں صاحب کی اہمیت بڑھانے کا ذریعیہ سمجھ رہے ہیں کیا سچ ہے کیا جھوٹ اس کا پول تو کھل ہی جائے گا البتہ میاں صاحب کی حب الوطنی کا پول روز بروز کھل رہا ہے ایک شخص جس کو اس قوم نے تین بار اپنے سر پر بٹھایا اس کی پاکستان سے وفاداری کتنی ہے اس کا اندازہ قوم کو بہت اچھی طرح ہو چکا ہے جس طرح ان کی بیماری پر سیاست کھیلی گئی یقینا اس میں بڑے بڑے نام اور ہاتھ شامل ہیں ایک ڈاکٹر صاحب نے اس پر کچھ روشنی ڈالی ہے کیونکہ میں تو ڈاکٹر نہیں ہوں اور جس ملک کی لیبارٹریوں میں چیف جسٹس کی پکڑی گئی شراب شہد بن جائے اس میں کوئی کچھ بھی رپورٹ بنوا سکتا ہے یہ تو پھر حکمران خاندان ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا حکیم لقمان کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا ان جیسا دانشور نہ پیدا ہوا ہے نہ ہوگا انہی دانشوروں کے درمیان ایک ڈاکٹر سموئیل بانیمن جو کہ کرسچن تھے اس شعبے میں آئے اور انہوں نے ایک فلسفہ دیا کہ ایک قوت حیات جو انسانی جسم کے اندر موجود ہے جو انسانی اعضا کو درست حالت میں رکھتی ہے اس کو قوت مدافعت کہتے ہیں اس قوت مدافعت کی تفصیل بیان کرنے کے لیے مائکرو بیالوجی والوں نے کیمسٹری والوں سے مل کر لیبارٹری بنائیں اور مرض کی تشخیص کے لیے مخصوص ٹیسٹ بنا دیے حالانکہ ہمارے شعبہ طب میں حکما حضرات یہ کام صرف مریض کی نبض دیکھ کر جان لیا کرتے تھے بلکہ ایک حکیم صاحب کے متعلق تو مشہور ہے شریعت کی پابندی کی وجہ سے عورتوں کی کلائی پر ایک دھاگہ بنھوالیتے اور اس دھاگے کو پکڑ کر مریضہ کی کیفیت جان لیتے کس مرض میں مبتلا ہے بحرحال ڈاکٹر صاحب کے مطابق ان لیبارٹریوں اور گونا گوں ٹیسٹوں نے مسیحا اور مریض کا رشتہ کمزور کر دیا ہے درجنوں ٹیسٹ کرا کر بھی مرض نامعلوم رہتا ہے مریض کا وقت اور پیسہ الگ ضایع ہوتا ہے بظاہر اس شعبے میں جدت آئی لیکن عقلی استعمال کم ہوتا گیا اور آج حالات یہاں تک ہیں کہ ڈاکٹر مریض کی لیبارٹری رپورٹیں دیکھ کر بتاتا اس کو کیا مرض ہے (اینوں لے جائو اینے نئیں جے بچڑاں)ایسا ہی نواز شریف کیس میں ہوا جب نواز شریف کو ایک سال گذر گیا جیل کے اندر تو ان کے معالج ڈاکٹر عدنان نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت نواز شریف کو ڈینگی بخار کا شکار کہہ کر جیل سے ہسپتال تک پہنچا دیا آگے کے سفر میں لیبارٹریز نے مدد کی اور لندن پہنچا دیا۔
میں نے جیسا کے عرض کیا ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹر تشخیص کر سکتا ہے تو نواز شریف کے ٹیسٹ دیکھ کر تمام ڈاکٹر ڈر گئے یہ مریض واقعی قریب المرگ ہے (دل ہی دل میں ہنستے ہونگے)ہمارے تشخیصی ادارے ایک خاص وقت سے پہلے کبھی بھی ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں دیتے چاہے آپ بندوق لے کر ان کے سر پر کھڑے ہو جائیں بحر حال یہاں انہوں نے آٹھ گھنٹے کے اندر رپورٹس دے دیں باقی کا کام سرکاری ادارے نے کر دیا اب جب سارے نتائج وزیر صحت کے آگے رکھے گئے تو وہ بھی پریشان ہو گئیں اور انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا نواز شریف واقعی بہت زیادہ بیمار ہیں اس صورتحال میں سب سے زیادہ خوشی ڈاکٹر عدنان کو ہی ہونا تھی کیونکہ وہ اپنی سکیم میں کامیاب رہے وہی رپورٹیں جب شوکت خانم کے ایک ڈاکٹر کو تصدیق کے لیے بھیجی گئیں تو انہوں نے بھی تصدیق کر دی رپورٹ کے مطابق تو مریض چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔
ویسے تو نواز شریف عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جب کوئی بھی سپر فٹ نہیں ہوتا اور اتنی بیماریاں بالکل عام سی بات ہے کوئی اور ہوتا تو اب تک گذر چکا ہوتا ،ماشا اللہ نواز شریف کو مشروط چھٹی دی گئی کہ اپنا علاج کرا سکیں اسی اثنا میں شہباز شریف نے اپنا رول پلے کیا لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دے کر مشروط چھٹی ختم کروا کے اپنے بھائی کی ضمانت دے دی اور ان کو لندن لے کر روانہ ہو گئے مگر تادم تحریر وہ پنجاب حکومت کو کوئی بھی خاطرخواہ جواب یا رپورٹ جمع نہیں کروا سکے کیونکہ وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں پنجاب حکومت نے ایک سو پانچ دن کے انتظار کے بعد وزیر اعظم سے التجا کی (جعلی بمار نوں واپس بلائو )کہ وہ نواز شریف کو واپس بلانے کے لیے برطانیہ کو خط لکھیں اور جب برطانیہ کو خط لکھا گیا تو شہباز شریف صاحب نے فرمایا وزیر اعظم ذاتی دشمنی کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں جبکہ شہباز شریف جانتے ہیں وہ جعلی بوگس رپورٹیں دے کر بھاگے تھے اب تک لندن سے کوئی رپورٹس نہیں بنوا سکے کیونکہ لندن میں جعلی رپورٹس بنوانا نا ممکن ہے یہ ہمارا ملک نہیں جہاں پیسے اور طاقت کے بل پر ہر کام کرایا جا سکتا ہے غالبا اسی وجہ سے امریکہ برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کی گئی یا ان کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے تاکہ پاکستانی قوم ڈر جائے ایڈا توں نواز شریف !