جیساکہ سرہیرلڈولسن کا کہنا ہے کہ ”سیاست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے”اوریہ ٹھیک ہے کہ ہمارے یہاں تو یکدم ایسا ہی ہو تاآیا ہے کہ سیاست میں ہر ہفتہ ایک نیااور اہم ہفتہ ہی ثابت ہواہے اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ کوئی دوماہ قبل وزیراعظم نواز شریف نے عمران سے اُن کے گھر خودجاکر ملاقات کی تو سیاسی حلقوں میں ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ اَب جیسے نوازاور عمران ماضی کی غلطیوں کو بُھولا کر پوری طرح بغلگیر ہوگئے ہیں اور اَب اِن کے سینوں میں موجود دل ایک ساتھ دھڑکیں گے اور اِن کے قدم بھی ایک دوسرے کو سہارادیتے ہوئے ایک ساتھ اُٹھیں گے۔
اور یہی عمران خان ہی تھے جنہوں نے اپنی اسلام آبادکی رہائش گاہ پر آئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو یقین دلایا تھاکہ اِن سمیت اِن کی ایک سالہ مدت پوری کرتی حکومت کو کسی بھی راستے سے نقصان پہنچانے کی کوشش یا سازش کی گئی تو یہ نواز شریف کا ساتھ دیں گے مگر پچھلے دِنوں جیسے ہی مولانا طاہرالقادری (مولانااحتجاجی ) نے موجودہ ایک سالہ نواز حکومت کو نکیل ڈالنے اور اِسے بھٹکنے سے پہلے ہی راہ راست پر لانے کے لئے 11 مئی سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو تب سے آج تک سب سے پہلے علامہ کی آواز پر لبیک کہنے اور علامہ کی آواز سے آواز ملا کر اِن کا ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے بھی پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ہی ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کا کونساوریہ تھا جب وزیراعظم نواز شریف سے جمہوریت کے خاطر ساتھ نبھانے اور ساتھ مرنے کا وعدہ کیا تھا…؟اور آج عمران خان علامہ کے ساتھ نواز حکومت مخالف تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کرکے یہ کیا کر رہے ہیں…؟ایسا لگ رہاہے کہ جیسے عمران خان کسی دیوانے کی سیاست کا حصہ بن کر ایسا ویسا کچھ کرنے جارہے ہیں…؟ آج جسے یہ خود بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں مگر مجھ سمیت بہت سوں کو یہ یقین ہے کہ جب اِن کی سمجھ میں آئے گا تو پانی اِن سمیت سب کی سمجھ سے بہت اُونچا ہوچکا ہوگا، بہرحال …! گیارہ مئی کا دن بھی کوئی زیادہ دورنہیں ہے ،تب دیکھ لیں گے کہ کس کے سر پر کتنے بال ہوں گے…؟ ابھی سے کسی کو کسی بھی لحاظ سے فکر مند ہونے یا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آج اِس سے قطعاََ انکار نہیں ہے کہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کی حکومت کس طرح اقتدار میں آئی ہے یہ بھی علامہ اور سونامی کے ساتھ ساتھ سب ہی جانتے ہیں اور آج نواز حکومت کو کارکردگی کے لحاظ سے کسی بھی طرح تسلی بخش قرارنہیں دیاجاسکتاہے مگراَب اِس کا یہ مطلب بھی نہ لیاجائے کہ حکومت خواب خرگوش میں پڑی ہے، آج حکومت کو مُلک میں توانائی اور دہشت گردی جیسے مسائل کے کنٹرول اور خاتمے کے لئے جتنے بھی وسائل درکارہیں وہ اِنہیں ضروربروئے کارلارہی ہے اور اَب تک اِس سے جو سکاوہ جیسے تیسے کچھ نہ کچھ کربھی رہی ہے،اوراَب تویہ بڑی حدتک خوش آئندہ امرہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے لوڈشیڈنگ کی موجودہ صورتحال کو ناقابل قبول قراردیتے ہوئے واضح ہدایت جاری کی ہے کہ آئندہ چندروزمیں شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کم کرکے 6گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 7 گھنٹے کی سطح پر لائی جائے لوڈشیڈنگ کا حالیہ دورانیہ ناقابلِ برداشت و قبول ہے۔
اِسے فوری طور پر کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں اور اِس کے ساتھ ہی اپنی حکومت کے ایک سال بعد وزیراعظم نواز شریف نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ غیرفعال بجلی گھروں کو فوری دوبارہ فعال بنایاجائے جس کے لئے اُنہوں نے متعلقہ محکموں کو ہدایات بھی جاری کردیں ہیں اور جہاں وزیراعظم نواز شریف نے یہ کچھ کہاہے تووہیں اُنہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ لیکچ، چوری اور بدعنوانی سے بچنے کے لئے بجلی گھروں کو ایندھن کی آسان فراہمی اور منتقلی ریلوے کے ذریعے کی جائے” اَب اپنی حکومت کے ایک سال بعد ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف اتنا کچھ تو کررہے ہیں مگر دھاندلی کا بہانہ بناکر اِن کی حکومت کے خلاف مولانااحتجاجی (طاہر القادری )اور کاغذی سونانی(عمران خان )پھر بھی گیارہ مئی سے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
Imran Khan
اَب ایسابھی نہیں ہے کہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان سمیت بہت سے حکومت مخالف لوگ خدانخواستہ کوئی پاگل پوگل ہیں،بلکہ یہ اپنے اپنے شعبوں میں یقیناقابلِ احترام شخصیات ہیں اگرچہ آج اِنہوں نے نوازحکومت کے خلاف گیارہ مئی سے احتجاج کرنے اور سڑکوں پر نکلنے کا کوئی پروگرام ترتیب دے رکھاہے تو اِسے میں جمہوری تقاضے تو یہی کہتے ہیں کہ نوازحکومت سیخ پاہونے اور علامہ احتجاجی اور مسٹرسونامی سمیت اور دوسرو ں کے خلاف حکومتی میشنری اور طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے اِنہیں اپنا احتجاج کرنے دے اور دیکھے کہ عوام حکومت کے ساتھ ہیں یا علامہ اور مسٹرسونامی عمران خان کے ساتھ ہیں اوراگر عوام اِن دونوں کے ساتھ ہیں تو پھر حکومت خاموشی سے خوداپنا اقتدار چھوڑدے اور اگر حکومت (طنزاََخدانخواستہ )یہ محسوس کرے کہ عوام اِس کے ساتھ اور اِس کے حق میں ہیں تو پھر وہ کرے جیسا قانون کہتاہے۔
پھر جمہوریت کو اِس طرح بچائے کہ مُلک کے غریب عوام کو مہنگائی سمیت اِسے درپیش دیگر مسائل سے نجات دلائے اور مُلک میں جمہوری اور جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھائے… ورنہ حکومت اتناضرورسوچ لے کہ اِس نے ایک سال کے عرصے میں غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کیاہے تب ہی تو عوام علامہ احتجاجی اور مسٹرسونامی کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے یہاں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ آج اگرحکومت نے خالصتاََ نیک نیتی سے ایک سال کے عرصے میں عوام کی فلاح وبہبودکے خاطر کچھ کیاہوتاتوکوئی بھی غریب امریکا پلٹ علامہ اور خالی پیلی مسٹرسونامی کے پیچھے نہ ہولیتے…بہرکیف ..!اگروزیراعظم نوازشریف نے ابھی اپنااور اپنی ایک سالہ حکومت کا خودسے احتساب نہ کیا توپھر یقینا 11 مئی کو احتجاج روکنانوازحکومت کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے، لہذاضرورت اِس امر کی ہے۔
نوازشریف علامہ احتجاجی اور سونامی کے احتجاج کو نہ روکیں…اور یہ حکمت اختیارکرتے ہوئے سرکاری اور نجی ملازمین تنخواہوں میں 50 سے80 فیصد فوری اور حقیقی اضافے کا اعلان کرکے علامہ احتجاجی اور سونامی کے احتجاج کو ناکام بنادیں…ورنہ ..ورنہ….سمجھ لیں کے 11 مئی یا اِس کے بعد حکومت وزیراعظم کے ہاتھ سے گئی ۔)ختم شُد)