تحریر: محمد شاہد محمود وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے کا اعلان کر دیا جب کہ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو بلا کسی تاخیر کے گھر چلا جاؤں گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ ایک نہایت اہم مسئلے پر آپ کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں، آپ جانتے ہیں کہ میری ساری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے، میں پاکستان میں پیدا ہوا، اسی کی گلیوں میں بچپن، لڑکپن، جوانی سب یہیں گزارا اور یہیں تعلیم حاصل کی، میری اولاد بھی پاکستان میں پیدا ہوئی اور سب کی پرورش بھی یہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا پورا خاندان پاکستان کیساتھ دل و جان سے وابستہ ہے، فخر ہے کہ میں اس مٹی سے اٹھا ہوں اور ایک دن اسی مٹی میں چلا جاؤں گا۔وزیراعظم نوازشریف اپنے اس دور حکومت میں ایک ہی ماہ میں تین بار خطاب کر چکے ہیں ،پہلا خطاب انہوں نے 27مارچ اقبال ٹاون کے گلشن اقبال پار ک میں خود کش دھماکے کے بعد کیا جس انہوں نے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔
پانامالیکس نے ملک میں بھونچال سی صورتحال پیدا کر دی جس میں ملک کے بڑے سیاستدانوں سمیت بزنس ٹائیکون کے نام پر آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا جس کے بعد وزیراعظم نے دوسری بار 5اپریل کو قوم سے خطاب کیا اور اپنے کاروبار سے متعلق تفصیلات سے آ گاہ کیا۔پانامالیکس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت رد عمل کے باعث حکومت کو کئی مشکلات کا سامنارہاجس میں سب سے بڑی مشکل تحقیقات کیلئے کمیشن کی تشکیل رہی ،حکومت نے کئی ججز سے رابطہ بھی کیا لیکن اکثر ججز نے سربراہی سے معذرت کرلی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
Sharif Family-Panama Leaks
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے تیسرا خطاب کیا جس میں انہوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان کیاہے۔ وزیراعظم کا خطاب میں مزیدکہنا تھا کہ مجھے وطن کی مٹی سے عشق ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، میں نے تین دہائیوں میں بہت نشیب و فراز دیکھے، ان سب میں سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت وہ تھا جب مجھے جلا وطن کرکے پاکستان سے دور رہنے پر مجبور کیا گیا اور خدا جانتا ہے کہ ان 8 برسوں کا یک ایک لمحہ کس طرح وطن کو یاد کرکے گزارا جس کے بعد خدا وہ وقت لایا جب نہ صرف میں وطن واپس آیا بلکہ عوام نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تیسری مرتبہ خدمت کی ذمہ داری سونپی۔ ایک معاملے کو بنیاد بنا کر حوس اقتدار کی خاطر ایک مرتبہ پھر ملک کو غیر مستحکم کرنے کوشش کی جا رہی ہے۔
پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد فوری قوم کو اعتماد میں لیا، میری ذات پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں، مگر میں نے ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم ہونے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے آزاد و غیر جانبدار کمیشن بنانے کا اعلان کیا جو سپریم کورٹ کے ریٹارئرڈ جج پر مشتمل ہو وہ اس معاملے کی پوری جانچ کرے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ کئی برس پرانے ہیں، یہ وہی کیس ہیں جن کی مکمل چھان بین پہلے 90 کی دہائی میں کی گئی، اس کے بعد پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت نے باریک بینی سے اس کی چھان پھٹک کی مگرا خدا کے فضل سے بد عنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی غیر قانونی ٹرانزکشن بھی ثابت نہ کر سکے۔
ہم پر کسی کرپشن، کک بیک، کمیشن کا مقدمہ نہیں بنا سکے لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔ جمہوری حکومتوں کی یہی روایت ہے، ہمارے اثاثوں کی تفصیلات قوم کے سامنے ہیں، ہمارا خاندان اس وقت سے ٹیکس دے رہا ہے جب اس کے ہجے بھی کسی کو نہیں آتے تھے اور یہ بھی ہماری حکومت کا ہی کریڈٹ ہے کہ ہم نے پہلی مرتبہ ٹیکس پیئرز ڈائریکٹری شائع کی۔ میرے علم میں جب یہ بات آئی کہ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں تو میں نے وزیرخزانہ کو ہدایت دی کہ یہ سب جاننا عوام کا حق ہے لہذا اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر دوبارہ شائع کی جائیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کو مایوس کن قرار دے دیا۔ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے تیسری بار سیاسی مرثیہ گوئی سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن ویب سائٹ پر ان اثاثوں کا ذکر نہیں جو پاناما لیکس میں سامنے آئے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کمیشن کے اختیار ات پر کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے بتا یا کہ چیف جسٹس کیسے اور کتنے عرصے میں تحقیقات کر پائیں گے۔آرمی چیف کے بد عنوانی کے خلاف اقدام نے وزیر اعظم کے اعصاب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔نعیم الحق نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان فوبیا کا بری طرح شکار نظر آئے ہیں۔
Corruption
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وزیراعظم کے قوم سے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا کہ وزیراعظم کا چیف جسٹس کو خط لکھنے کا اعلان پانامہ لیکس کے فوری بعد آجاناچاہیے تھا تاکہ قوم کاو قت ضائع نہ ہوتا۔ بہر حال دیر آید درست آید ، یہ پاکستانی قوم کی کامیابی ہے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے یہ ٹھیک قدم اٹھایا گیاہے۔ اب اس عدالتی کمیشن کے TOR صرف اپوزیشن سے مکمل اتفاق کے بعد بنانے چاہئیں جو موجودہ حالات میں ہر طرح کی کرپشن کو بند کرنے کا سبب بنیں۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کی کرپشن کے خلاف جاری مہم وقت کی ایک اہم ضرورت ثابت ہو گئی ہے اور کرپشن کے ہر سوراخ کو بند کرنے کے لیے ہم اپنی مہم جاری رکھیں گے۔
وزیر اعظم کی تقریر میں بلاوجہ تلخی محسوس ہورہی تھی ، حالانکہ پانامہ لیکس کے الزامات اپوزیشن نے نہیں لگائے بلکہ ایک حقیقت کے طور پر بین الاقوامی انکشاف ہے۔ دنیا بھر میں اس طرح کے انکشافات کے بعد رضا کارانہ استعفیٰ دینے کی روایت موجود ہے جو وزیراعظم پاکستان نے اپنے لیے پسند نہیں کی۔ انہو ں نے کہاکہ اس بحران کو جلد از جلد حل ہوناچاہیے اور سپریم کورٹ بھی کوئی وقت ضائع نہ کرے۔ چیف جسٹس کو اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑے تو قوم کے لیے باعث اطمینان ہوگا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نوازشریف کو اپنی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نوازشریف سے قوم سے خطاب پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو کر وضاحت دیں اور ان کا کہناتھا کہ نوازشریف کو اپنی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب پر مریم نواز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ویلڈن پرائم منسٹر، کہتی ہیں نواز شریف نے اپنے خطاب میں جھوٹوں اور سازشیوں کو آڑے ہاتھو ں لیا ہے۔ مریم نواز شریف نے وزیر اعظم کو شیر پکارتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ قوم سے خطاب میں نواز شریف کو بااعتماد، پختہ کار اور بہادر وزیر اعظم دیکھ کر اچھا لگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے خطاب میں جھوٹوں اور سازشیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد حکومت کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتیں اور قوم چیف جسٹس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ کمیشن کی سربراہی قبول کریں اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں ایک فیصلہ کن کردار اد ا کریں۔ پارلیمانی کمیشن میں یہ صلاحیت نہیں ہوسکتی کہ وہ بیرون ملک سے دولت واپس لا سکے۔ اب وقت آگیاہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ایک کرپشن فری اور ترقی یافتہ پاکستان چھوڑ کر جائیں اور ایسا نظام بنائیں کہ ایک پیسے کی چوری کرنے والے کو بھی سزا ملے اور پیسہ واپس لیا جائے۔ جن لوگوں نے قوم خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، ان سے ریکوری ہونی چاہیے۔
نیب کو اربوں روپے ڈکارنے والوں سے چند لاکھ لے کر معافیاں دینے کا اختیار کس نے دیاہے ؟ اب یہ لوٹ کھسوٹ کا نظام نہیں چلے گا۔ غربت کی ماری قوم کے دو کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ غربت کے ہاتھوں لوگ گردے اور بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں آخر ان پسے ہوئے لوگوں کو انصاف کب ملے گا اور کون دے گا۔ اب حکمرانوں کی لیت و لعل نہیں چلے گی۔ وزیراعظم سمیت تمام ممبران اسمبلی اور سینیٹ خود کو احتساب کے اداروں کے سامنے پیش کریں۔ پانامہ لیکس نے جن چہروں کو بے نقاب کیاہے ، ان کا احتساب سب سے پہلے ہونا ضروری ہے۔