تحریر : حفیظ خٹک سابق وزیر اعظم نواز شریف، آپ اس ملک کے منتخب ہونے والے تیسرے وزیر اعظم ہیں، لیکن آپ کو ان تینوں بار کے عوامی انتخاب کے باوجود اپنی مدت پوری نہیں کرنی دی گئی۔ پہلی بار، دوسری بار ان دونوں باریوں کے دوران آپ کی حکومت کو ہٹادیا گیا اور اور اب کے بار یہ تیسری بار سپریم کورٹ کے ججز نے آپ کے خلاف درج مقدمات کو غور سے سننے کے بعد اس پر مزید تحقیقات کا حکم دیا۔ اس اقدام پر آپ سمیت آپ کے جماعت کے لوگوں نے مٹھائیاں کھائیں اور تحقیقات کے آغاز سے اختتام تلک کا ، آپ کی اولاد کا اور اس کے بعد آپ کے وزیروں، مشیروں اور وکلاءکا رویہ تاریخ میں ہمیشہ اچھے الفاظ میں لکھا جائیگا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف ، 28 مئی تا 28جولائی کی تاریخیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ امید ہے کہ آپ 28مئی کو بھولے نہیں ہونگے پھر بھی یاد دہانی کیلئے بتاتا ہوں کہ ہر ماہ کی جب بھی یہ تاریخ آتی ہے تو مجھے اک عظیم ہستی یاد آجاتی ہے ، ان کا کردار سامنے آجاتا ہے ۔ ان کی قوم کیلئے خدمات سامنے آتی ہیں اور میرا سر احترام میں جھکتا چلا جاتا ہے۔ یہ فرد ڈاکٹر قدیر ہیں جن پر قوری قوم کو فخر ہے اور ان سے بڑھ کر پوری امت کو فخر ہے۔ انہوں نے ہی اس ملک ایٹمی قوت تک پہنچایا انہی کی بدولت آج پاکستان دنیا میں ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ رکھتا ہے اور دشمنان پاکستان اپنے مذموم مقاصد کیلئے کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے کچھ نہیں بہت کشھ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن یہی محسن وطن ڈاکٹر قدیر کس حال میں ہیں اور آپ نے آپ کی حکومت نے ان کیلئے کیا ، کیا کچھ ہے ؟ آپ سے پہلے جو حکمران تھے انہوں نے کیا ، کیا ہے یہ سوال ان سے بھی ہے؟
28مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کے بعد سے آج تلک ہر اس دن کو قوم انہیں یاد کرتی ہے اور کرتی رہے۔ اس دن کے حوالے سے اک اور فرد بھی قابل ذکر ہیں ۔ وہ احمد مجتبی ہیں جنہوں نے اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا اور انہیں آپ نے اس دن کا نام رکھنے پر انعام و اکرام سے بھی نواز ا لیکن اس دن سے لے کر آج تلک وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی آپ سے اور ہر حکمران سے ملنے کے متمنی رہے ۔ وہ ان دستاویزات کو جو آپ کی حکومت نے انہیں عطا کیں تھیں انہیں سنبھالے ہوئے ہیں لیکن آج تلک آپ نے ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں کیا اور نہ ہی ان کے مطالبات کو پورا کیا ہے۔ وہ اب تلک آپ سے اور ہر حکومت سے اک سرکاری نوکری کا تقاضہ کرتے رہے ہیں اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انہوں ایک ریڑھی لگا لی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف ۔ آپ نے نہ ایٹمی قوت تک پہنچانے والے کی قدر کی اور نہ ہی اس دن کو یوم تکبیر کا نام دینے والے کی قدرکی، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ یہ قوم جس طرح 28مئی کو یاد رکھے گی اسی طرح 28جولائی کو بھی ہمیشہ یاد رکھے گی ۔ اسی 28جولائی کے دن سپریم کورٹ نے آپ کو وزارت عظمی کے عہدے کیلئے نااہل قرار دے دیا اور اس دن آپ نااہل ہونے کے سبب وزیر اعظم نہ رہے۔ قوم 28مئی کو جس انداز میں یاد رکھتی ہے اس پر فخر کرتی ہے وہ تو جاری رہے گا ،مستقبل میں کبھی بھی اس تاریخ کو ذہنوں سے نہیں نکالا جائیگا اسے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا اور احسن انداز میں ہی یاد رکھا جائیگا ۔ تاہم اس کے ساتھ 28جولائی کی جب بھی تاریخ آئے گی تو قوم دوحصوں میں منقسم ہوکر اس دن کو بھی منائے گی ۔ ایک جانب خوشیاں منائی جائینگی اور دوسری جانب دکھوں کا اظہار کیا جائیگا لیکن دونوں صورتوں میں آپ ان کے سامنے رہیں گے۔
28مئی سے لے کر 28جولائی تک کی تاریخیں قوم کی یادداشت بن گئیں ہیں ۔ ان تاریخوں سمیت متعدد اور بھی تاریخیں اور واقعات ہیں ، حالات ہیں جس کے سبب آپ ان کیلئے ، ان کے ذہنوں میں ہمیشہ اپنے کردار کی وجہ سے آباد رہیں گے۔ اب جب کہ کچھ نہیں بہت کچھ ہوگیا اور انسان تجربات سے ہی اگر چاہے تو سبق سیکھ سکتا ہے اور اپنی زندگی میں آئندہ کیلئے ان تجربات سے مستفید ہوسکتا ہے۔
Nawaz Sharif
سابق وزیر اعظم نواز شریف ، ماڈل کالونی لاہور میں طاہر القادری کی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ شہباز شریف کو ایک لمحہ بھی نہ طاہر القادری بھول پائے ہیں اور نہ ان مرحومین کے لواحقین ، نہ ان کے ساتھی کارکنان اور نہ ہی پورا پاکستان ۔ اب آپ نے اپنی نشست پر اپنے ہی بھائی کو لانے کا فیصلہ کیا جسے لاہور کے ان واقعات کا عوام ذمہ دار سمجھتی ہے ، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا وہ لوگ شہباز شریف کے خلاف ایک بار پھر نئے عزم کے ساتھ عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائیں گے؟ وہ جائیں اور آپ کے بھائی کے خلاف انصاف کے حصول کیلئے وہ سب ااگے بڑھیں گے۔ نہیں معلوم کہ اس کے بعد بھی جو فیصلہ ہو وہ بھی کوئی 28 ہی تاریخ ہو۔