وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے چار روزہ دورہ امریکہ پر پاکستانی میڈیا دو حصوں میں بٹ چکا ہے ایک اس کو مکمل کامیاب دورہ قرار دے رہا ہے، تو دوسرا اس کو ناکام اور پھسپھسا دورہ کہہ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنی سی بھر پور کوشش کی مگر امریکی اس وقت ہندوستان کے سحر زیادہ ہونے کے ساتھ ہی نواز شریف کی شخصیت سے درون ِخانہ خائف دکھائی دیتے ہیں جس کا اظہار امریکیوں کے لئے ان کی رعونت کے پیشِ نظر ممکن نہیں ہے۔
نواز سریف نے ڈرون حملوں کے معاملے میں اپنا مضبوط موقف برقرار رکھا۔ جو امریکیوں کے لئے شدید اندرونی تشوش کا باعث ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اوباما سے ملاقات سے قبل پاکستان کورکی ہوئی امداد کا دانہ ڈالا گیا جس کے تحت ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی رکی ہوئی امداد کی بحالی کا عندیہ دیا گیا۔ہم کہتے ہیں کہ یہ امداد ہے نہ کوئی عطیہ ہے اور نہ ہی امداد ہے بلکہ یہ ایک ما ہدے کے تحت دی جانے والی و ہ رقم ہے جو ہمارا اپنے مسلمان منہ زور بھائیوں کو مارنے کا محنتانہ ہے۔لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے ڈروں حملے روکنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے….امریکی حکام نے کہا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملے کسی صورت میں ختم نہیںکئے جا سکتے ہیں۔ البتہ ان کی تعداد میں کمی کی جا رہی ہے….ایک امریکی اخبار واشنگٹن پوست نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ماضی میں عوامی سطح پر مذمت کرنے کے باوجود پاکستان نے کئی برسوں تک امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی تھی!!!جو نہایت ہی شرمناک بات ہے۔ماضی کی حکومتوں کے اس قسم کے فیصلوں پر پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ باب ووڈ نے اپنی ایک دستاویز میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہر ڈرون حملے سے متعلق اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے۔
بعض اوقات تو یہ حملے ان کی فرمائش پر کئیے جاتے رہے ہیں۔ باب ووڈ نے رہی سہی ہماری عز ت کی نیلامی یہ بتا کر کردی کہ پاکستان کی حکومت اور اسٹابلشمنٹ بھی ڈروں حملوں کے محرکین میں سے ہیں۔اس ضمن میں پاکستان کا دفترِ خارجہ بھی امریکی سی آئی اے سے ہمہ وقت تبادلہ خیالات اکرتا رہا تھا۔ اس تعاون میں ہمارے عسکری ذرائع بھی کسی سے پیچھے کیوں رہتے؟؟؟ہر ایک اپنی اپنی ڈیوٹی بحسن و خوبی انجام دیتا رہا ہے۔ ان محرکین نے قوم سے بار بار جھوٹ بولا اور پھر بھی یہ نیک، پاک و پوتر ٹہرے ہیں۔
اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اپنی امریکہ یاترا کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے خود امریکی وزرتِ خارجہ کے دفتر جا کر اپنے عہدے کی توہین کروائی ہے۔جبکہ پروٹوکول کْا تقاضہ تو یہ تھا کہ جان کیری خود ان سے ملنے آتے۔ وزیر اعظم کا خود ہی امریکی دفترِ خارجہ میں جانا اور معمولی معمولی لوگوں سے ملنا اور سیکریٹری لیول کے لوگوں سے ان کا ذاتی طور پر ملاقاتیں کرناان کو زیب نہیں دیا۔ ان کے وقار اور وزیر اعظم کے منصب سے کمتر تھا اور وطنِ عزیز کی عظمت کو نیچا دکھانے کے مترادف تھا!!! جس سے ساری دنیا میں پاکستان کی سُبکی ہوئی ہے۔
اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والے وزیر اعظم کویہ تک احساس نہ ہوا کہ وہ معمولی معمولی لوگوں سے مل کر خود اپنے عہدے کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔ جب امریکی وزیر خارجہ کرسٹینا روکا پاکستان آتیں تو وہ سیدھی ایوان صدر کا رخ کیا کرتی تھیں۔ اس کے بر عکس پاکستان کے وزیر اعظم کو اس بات پر ذرا بھی سبکی محسوس نہ ہوئی کہ وہ بذاتِ خود ایواں صدر کے بجائے دفترِ خارجہ میں اپنی حاضری لگوانے کے لئے چلے گئے اورامریکہ کا وہ میڈیا جو یہودی کی بیٹی اور اسلامی شعائر کی مخالف کے استقبال کے لئے توفرشِ راہ تھا اوراس کی تعریفوں کے پل باندھے جا تے رہا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے دورے پر گویاان کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
Aafia Siddiqui
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہِ امریکہ کے دوران پاکستان کو زبردست سبکی کا سامنا رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ وزیر اعظم بغیر کسی ہوم ورک کے صدر بارک اوباما سے ملنے چلے گئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد ہم نے خودہی اپنے آپ کو مجرم بھی ٹہرا لیا تھا۔ عافیہ صدیقی جن کو امریکہ کی متعصب عدالت نے طویل عرصہ کی سزا دی ہوئی ہے کے معاملے پر بقول امریکی حکام وزیر اعظم کی طرف سے کوئی بات کی ہی نہیں گئی ہے۔اس معاملے پر یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اوباما کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
صدر اُوباما نے ون ٹو ون ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان سے دال قیمے کی تو تعریف کی مگر ڈرون حملوں کیلئے کہا کہ میں ان کو نہیں روک سکتا آپ کو معلو ہے وہ کس وجہ سے ہم کر رہے ہیں؟؟جن کو پاکستان کا دال قیمہ بہت یادہے …مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ صدر امریکہ نے ہمارے وزیر اعظم کو ڈنر تک پر مدعو نہیں کیا جو ہماری تزہیک ہے…. وزیر اعظم نے اوبامہ سے ملاقات کے بعد خود یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے ساتھ اکیلے میں جو لمحات گذرے اُن میں صدر اوباما نے ان سے جماعت الدعوة پر پابندی لگانے کا مطالبہ دہرایا تھا۔ صدر اوباما لشکرِ طیبہ جس پر ہندوستان نے ممبئی حملون کا ملبہ ڈالا ہوا ہے کے خلاف ہندوستان کو خوش کرنے کے لئے ایکشن چاہتے ہیں۔اسی طرح شکیل آفریدی جو پاکستان کا غدار اور ایک ایسا مجرم ہے جو سی آئی اے کیلئے پاکستان میں بیٹھ کر جا سوسی کرتا رہاجو ہماری قوم کا بڑا مجرم ہے کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر عافیہ صدیقی کے بارے میں دونوں جانب کے زبانیں گُنگ تھیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب 1999 میں میاں صاحب صدر کلنٹن سے مل رہے تھے تو ان کے دوست کلنٹن ہندوستانی وزیر خارجہ کے روپ میں تھے۔اسی طرح صدر اوبامہ بھی موجودہ دورے می کے دوران ہندوستاں کے وزیرخارجہ کے روپ میںہی اس ملاقت میں دیکھے گئے۔ امریکہ کے امورِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان واضح الفاظ میںیہ بات سامنے آئی کہ مسئلہ کشمیر پر وہ بحییثت پاکستان کا دوست ملک ہونے کے کوئی ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ اس مسئلے پر ہندوستان کی نارضگی مول نہیں لینا چاہتا ہے۔ امریکہ کے امورِ خارجہ کی جانب سے یہ بیان واضح الفاظ میںیہ بات سامنے آئی کہ مسئلہ کشمیر پر وہ بحییثت پاکستان کا دوست ملک ہونے کے کوئی ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ اس مسئلے پر ہندوستان کی نارضگی مو ل نہیں لینا چاہتا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان، پاکستان کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن اس کے اسلامی تشخص اور اس کی ایٹمی قوت سے گویا خائف ہیں۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں غیر قانونی ہلاکتیں کی گیئں ہیں۔ جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ 68 سالہ بوڑھی خاتوں، مدرسے میں زیر تعلیم معصوم پچاسیوں بچے، روزی روٹی کی جدوجہد میں محنت کرتے ہوے 18 مزدور اور سینکڑوں بے گناہ انسان جو جرمِ بے گناہی میں شہید کئے گئے۔ کیا وہ تمام جنگی جرائم کا حصہ تھے؟؟.یا وہ تمام بے گناہ افراد امریکہ اور یورپ کی تباہی کے لئے ایٹمی قوت سے بھی زیادہ خطر ناک تھے؟ مگر پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا ڈرون ہلالتوں کے بارے میں عجیب موقف سامنے آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ساڑھے تین سو سے زیادہ ڈرون حملوں میں صرف 57 بے گناہ مارے گئے ہیں جو بڑی شرم ناک بات ہے۔ امریکہ نے ایمینیسٹی انٹر نیشنل کے الزمات پر مبنی رپورٹ کو یکسر مسترد کر تے ہوے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے وہائٹ ہائوس رپورٹ کا جائزہ لے رہا ہے۔ ایمنیسٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی اپنے انکشاف میں کہا کہ اس رپورٹ سے پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائد ہوئی ہے۔ 2008میں امریکی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کااجازت نامہ ڈرون حملوں کے ضمن میں پیش کر دیا تھا۔ جو کیبل نیٹ کی شکل میں دکھایا بھی گیا۔
ماضی میں پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ادورا میں ڈرون حملوں کی توسیق باہمی رضا مندی سے کی جاتی رہی تھی۔ جن کی رپورٹیں مسلسل منظرِ عام پر بھی آرہی ہیں۔ بل ایمر سن جو اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ہین نے جنرل اسمبلی میں اپنی مرتب کردہ رپورٹ میں بھی انکشاف کر دیا ہے کہ 2004 تا 2008 میں کئے جانے والے ڈرون حملوں کے ذمہ دار پاکستان کے فوجی اور خفیہ ادارے ہیں!!!ہماری جانب سے ایبٹ آباد اور سلالہ حملوں پر صرفِ نظر قومی جرم تھا اور وزیر اعظم کے اس دورے میں بھی ان امور پر کوئی بات سامنے نہ لائی گئی۔
Drone Attacks
میاں صاحب کے بیانات سے بھی تاثر یہ ہی ملتا ہے کہ وہ ڈروں حملوں کی شدت سے مخالفت کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ امریکی حکام کو اس جانب لانے میں مکمل نا کام رہے۔یہ بات بہر حال قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان کے کسی سر براہ حکومت نے امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات توکی!!!ہمیں تو ڈر اس بات کا ہے کہ امریکی ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتے ہیں اوربہت جلد راستے سے ہٹانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ہمارے سامنے تین سابق وزراء اعظم بشمول نواز شریف کا انجام موجود ہے۔ لیاقت علی خان جنہوں نے امریکیوں کو ہوئی مستقر دینے سے انکار کر دیا تھا،انہیں سی آئی اے کے ایجنٹ کے ذریعے قتل کرانے میں امریکیوں نے ذرا بھی دیر نہ کی تھی۔ ذولفقار علی بھٹو جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی میدان میں قدم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا انہیں بھی سولی چڑ ھوا دیا گیا۔تیسرے خود نوازشریف ہیں جن کو ایٹمی دھماکو کی پاداش میں بڑ ی سر کارنے اپنے گماشتے کے ذریعے پھانسی دلوانا چاہی تھی…مگر جسے اللہ رکھے اسُے کون چکھے کے مصداق پہلی مرتبہ تو وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔مگر آئندہ انہیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے….پاکستان کے کسی بھی سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کو اس قسم کی خطر ناک کیفیت کا کبھی بھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا جس کا آج وزیر اعظم پاکستان کو ہے۔ ڈرون حملوں کے ضمن میں موجودہ حکومت کاکہنا ہے کہ کئی مرتبہ امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ میں طلب کر کے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس کے ساتھ یورپی یونین میں بھی اس قتل و غارت گری کا معاملہ اٹھایا گیا۔
قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے دورہِ امریکہ سے توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ دوسری جانب امیر جماعتِ اسلامی سید منور حسن کہتے ہیں کہ نواز شریف ڈرون حملوں، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور مسئلہِ کشمیر پر امریکہ کی طرف سے کوئی مثبت اور امید افزا جواب حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایک اہم اانٹیلی جینس ایجنسی اور تجزیہ کار اسٹریٹ فور کے مطابق نواز شریف کا واشنگٹن کا دورہ مجموعی طور پر ناکام رہا۔ ایپنے تفصیلی تجزیئے میں ایجنسی نے کہا ہے کہ جمعرات کا دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ایک برا دن تھا۔ کیونکہ وشنگٹن ڈرون حملوں کو روکنے پر رضامند نہ ہوا ۔نواز شریف بہت پہلے سے یہ راگ الاپتے رہے ہیں کہ” دنیا کو بر بھلا کہنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے”یہی بات انہوں نے اوباما سے ملاقات کے فوراََ بعد کہنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ عام تاثر یہ ہی ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا چار روزہ امریکی دورہ ”کھیا پیا کچھ نہیں گلاس ٹوڑا ایک سو ارب ڈالر”تھا۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.co